بیدر: نارتھ کرناٹک سے تعلق رکھنے والے تاریخی شہر بیدر سیاسی اعتبار سے مسائل کا شکار ہے حالانکہ یہاں محمود گاواں یونیورسٹی ہوا کرتی تھی۔ تعلیمی اعتبار سے یہ ایک مرکز ہوا کرتا تھا لیکن آزادی کے بعد سے لیکر اب تک کوئی تعمراتی کام نہ ہونے کی وجہ سے اسے پچھڑے علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اب اسمبلی انتخابات قریب ہیں، اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے بیدر شہر کے معروف وکیل ایڈووکیٹ سرفراز ہاشمی سے بات کی کہ وہ بیدر کے سیاسی حالات کو کیسے دیکھتے ہیں اور آنے والے انتخابات کو لیکر بیدر کی کیا سوچ ہے۔
ایڈووکیٹ سرفراز ہاشمی نے کہا کہ بیدر تاریخی شہر ہے۔ آزادی کے بعد سے لیکر اب تک یہاں پر کوئی خاص ترقی نہیں دیکھی گئی ہے اور نہ ہی قیادت کی جانب سے ملت یا قوم کے مسائل پر آواز اٹھائی جاتی ہے لہٰذا شہر میں اقلیتی قیادت ہونے کے باوجود بیدر کی عوام سیاسی اعتبار سے یتیم ہوچکی ہے۔ سرفراز ہاشمی نے بتایا کہ بیدر کے سرکاری دفاتیر میں کرپشن بدعنوانی عروج پر ہے، عوام کا کسی بھی قسم کا کوئی بھی کام رشوت کے بغیر نہیں ہورہا ہے، حتی کہ سیاست دان ہوں یا سرکاری افسران، سبھی مل بانٹ کر رشوت خوری کرکے کھا رہے ہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ مقامی ایم ایل اے کی جانب سے کوئی مداخلت یا کارروائی نہیں کی جاتی۔
بیدر میں ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں سرفراز ہاشمی نے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے کوئی قابل ستائش ترقیاتی کام شہر میں نہیں کئے گئے ہیں، نہ ہی تعلیمی میدان میں اور نہ ہی انڈسٹریز کے قیام میں کہ جس سے نوجوانوں کے لئے روزگار مہیا کیا جاسکے۔ سرفراز نے کہا کہ شہر بنیادی مسائل سے دو چار ہے، کئی کئی دنوں تک سرکاری نلوں میں پانی نہیں آتا بلکہ انہوں نے الزام لگایا کہ سرکاری نلوں کو قصداً بند کروایا جاتا ہے تاکہ مقامی ایم ایل اے پانی کے ٹینکرز کی ذریعہ پانی پہونچائے اور الیکشن سے قبل ووٹروں کو رجھا سکے۔ انہوں کہا کہ شہر میں حالانکہ متعلقہ محکمہ کی جانب سے بورویل کھدانے پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن مقامی ایم ایل اے کے پریشر کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر بورویل کھودے گئے ہیں۔