دھاراوی قتل Dharavi Murder کے پس پشت خاتون بھی ملوث تھی جسے 14 فروری کو ہی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا اسی بنیاد پر تفتیش میں پیش رفت ہوئی اور کرائم برانچ Crime Branch نے باقاعدہ اس کی تفتیش شروع کی اور اسے سراغ ملا کہ اس کیس میں ماسٹر مائنڈ کلیم رؤف سید ہے، جس پر ڈی آر آئی نے کیس درج کیا تھا اور اس کے قبضے سے 50 کلو ایم ڈی ضبط کی گئی تھی، عامر انیس خان پر ملزمین نے آٹھ راؤنڈ گولی چلائی تھی، جس میں وہ زخمی ہوگیا تھا اور اس کے بعد دوسرے روز اس کی موت واقع ہوگئی اور پولیس نے اقدام قتل کو قتل میں تبدیل کردیا۔
ملزمین کے قبضے سے کرائم برانچ نے ایک دیسی کٹہ، دو پستول، اور 22 کار آمد کارتوس برآمد کیا ہے، موٹر سائیکل پر 'اے' کمپنی تحریر تھی، قتل کی سازش 3 جنوری کو اس وقت تیار کی گئی جب کلیم رؤف سید کو تھانہ کورٹ میں پیش کیا گیا، اسی دوران ملزمین نے اس سے ملاقات کی اور پھر قتل کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ملزمین نے ہتھیاروں کا انتظام کیا اور پھر 10 دنوں تک اپنے ہدف یعنی عامر کا معائنہ کیا اس کی حرکات و سکنات کی تفصیلات جمع کیں اور پھر 12 فروری کو حملہ آوروں نے اس پر دھاراوی پیلہ بنگلہ پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ بیت الخلا کے لیے گیا تھا۔
کرائم برانچ کو ملزمین کو پکڑنا انتہائی مشکل تھا لیکن جب یہ ملزمین کا رابطہ مشتبہ خاتون سے ہوا تو کرائم برانچ کو معلوم ہوا کہ ملزمین کے پاس راہ فرار اختیار کر نے کے لیے پیسہ نہیں ہے، تو کرائم برانچ کے انچارج گھنشیام نائر نے پیسہ فراہم کیا اور اسی دوران ریلوے اسٹیشن سے ملزمین کو گرفتار کیا جس میں اہم ملزم کو سورت سے گرفتار کیا گیا۔
تمام ملزمین کلیم کے لیے کام کرتے تھے اور کلیم انہیں مالی اعانت بھی دیا کرتا تھا ملزمین نے قتل سے قبل علیگڑھ اور کلکتہ سے ہتھیار بھی حاصل کیے اور اسی کا استعمال فائرنگ میں کیا گیا۔ قتل کی سازش کلیم نے ہی تیار کی تھی کیونکہ اس کے دبدبہ کا خاتمہ دھاراوی سے ہوگیا تھا اور وہ دوبارہ اپنا دبدبہ قائم کرنا چاہتا تھا جن ملزمین کو گرفتار کیا گیا ہے وہ مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔