کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ و رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے دہلی پولیس کی جانب سے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس کاروائی سے خوفزدہ نہیں ہوں‘۔ انہوں نے سلسلہ وار ٹوئٹ کرتے ہوئے پولیس کی کارروائی پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ’مجھے ایف آئی آر کی کاپی کا کچھ حصہ ملا ہے۔ اس طرح کی یہ پہلی ایف آئی آر ہے جسے میں نے دیکھا ہے جس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ میرا جرم کیا ہے، جہاں تک میرے خلاف ایف آئی آر کا تعلق ہے، ہم اپنے وکلاء سے مشورہ کریں گے‘۔ اویسی نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ دہلی پولیس میں یتی نرسنگھانند سرسوتی، نوپور شرما اور نوین جندال کے خلاف مقدمات کی پیروی کرنے کی ہمت نہیں ہے جس کی وجہ سے کیس کو کمزور بنایا گیا جب کہ یتی نے مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی دی تھی اور اسلام کی توہین کرتے ہوئے قانون کی بار بار خلاف ورزی کی۔ Police Have Balance-waad Syndrome
انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر پر تنقید اور نفرت انگیز تقریر کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ’دہلی پولیس نے بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما اور نوین جندال کے علاوہ متنازع سنت یاتی نرسنگھانند اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ ان سبھی پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر امن کو خراب کرنے اور لوگوں کو اکسانے کے لیے سوشل میڈیا پر پیغامات شیئر کیے تھے۔ یہ مقدمات تعزیرات ہند کی دفعہ 153 (فساد بھڑکانے کے ارادے سے اشتعال انگیزی)، 295 (عبادتگاہ کی توہین) اور 505 (متنازعہ بیان دینا) کے تحت درج کیے گئے ہیں۔
اویسی نے دہلی پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہلی پولیس شاید ہندوتوا بنیاد پرستوں کو نقصان پہنچائے بغیر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے طریقہ پر غور کر رہی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ دہلی پولیس طرف داری یا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کررہی ہے جب کہ ایک طرف ہمارے پیغمبر کی کھلے عام توہین کی جاتی ہے تو دوسری طرف بی جے پی کے حامیوں کو یہ سمجھانے کی اور دنیا کے ساتھ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نفرت انگیز تقاریر دونوں جانب سے کی گئیں۔ وہیں میرے معاملے میں درج ایف آئی آر میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کیا چیز قابل اعتراض تھی۔
انہوں نے کہا کہ یتی، نسل کشی سنسد گینگ، نوپور، نوین وغیرہ نے اس کی حرکتوں کے عادی ہوچکے ہیں، تاہم بین الاقوامی مذمت اور عدالتوں کی مداخلت کے بعد ان کے خلاف کمزور کاروائی کی گئی۔ اس کے برعکس، مسلم طلباء، صحافیوں اور دیگر سماجی کارکنوں کو محض اس لیے جیل میں ڈال دیا گیا کیونکہ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔