اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

FIR Against Owaisi: دہلی پولیس نے توازن بنانے کیلئے میرے خلاف مقدمہ درج کیا، اسدالدین اویسی

دہلی پولیس نے بیرسٹر اسدالدین اویسی پر امن میں خلل ڈالنے اور لوگوں کو بھڑکانے والے پیغامات پوسٹ کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کیا ہے۔ دہلی پولیس کی جانب سے ان کے خلاف مقدمہ درج کیے جانے کے بعد ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسدالدین اویسی نے سلسلہ وار ٹوئٹ کیے۔ FIR Against Owaisi

دہلی پولیس نے توازن برقرار رکھنے کےلیے میرے خلاف مقدمہ درج کیا، اسدالدین اویسی کا ردعمل
دہلی پولیس نے توازن برقرار رکھنے کےلیے میرے خلاف مقدمہ درج کیا، اسدالدین اویسی کا ردعمل

By

Published : Jun 9, 2022, 6:07 PM IST

کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ و رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے دہلی پولیس کی جانب سے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس کاروائی سے خوفزدہ نہیں ہوں‘۔ انہوں نے سلسلہ وار ٹوئٹ کرتے ہوئے پولیس کی کارروائی پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ’مجھے ایف آئی آر کی کاپی کا کچھ حصہ ملا ہے۔ اس طرح کی یہ پہلی ایف آئی آر ہے جسے میں نے دیکھا ہے جس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ میرا جرم کیا ہے، جہاں تک میرے خلاف ایف آئی آر کا تعلق ہے، ہم اپنے وکلاء سے مشورہ کریں گے‘۔ اویسی نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ دہلی پولیس میں یتی نرسنگھانند سرسوتی، نوپور شرما اور نوین جندال کے خلاف مقدمات کی پیروی کرنے کی ہمت نہیں ہے جس کی وجہ سے کیس کو کمزور بنایا گیا جب کہ یتی نے مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی دی تھی اور اسلام کی توہین کرتے ہوئے قانون کی بار بار خلاف ورزی کی۔ Police Have Balance-waad Syndrome

انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر پر تنقید اور نفرت انگیز تقریر کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ’دہلی پولیس نے بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما اور نوین جندال کے علاوہ متنازع سنت یاتی نرسنگھانند اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ ان سبھی پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر امن کو خراب کرنے اور لوگوں کو اکسانے کے لیے سوشل میڈیا پر پیغامات شیئر کیے تھے۔ یہ مقدمات تعزیرات ہند کی دفعہ 153 (فساد بھڑکانے کے ارادے سے اشتعال انگیزی)، 295 (عبادتگاہ کی توہین) اور 505 (متنازعہ بیان دینا) کے تحت درج کیے گئے ہیں۔

اویسی نے دہلی پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہلی پولیس شاید ہندوتوا بنیاد پرستوں کو نقصان پہنچائے بغیر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے طریقہ پر غور کر رہی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ دہلی پولیس طرف داری یا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کررہی ہے جب کہ ایک طرف ہمارے پیغمبر کی کھلے عام توہین کی جاتی ہے تو دوسری طرف بی جے پی کے حامیوں کو یہ سمجھانے کی اور دنیا کے ساتھ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نفرت انگیز تقاریر دونوں جانب سے کی گئیں۔ وہیں میرے معاملے میں درج ایف آئی آر میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کیا چیز قابل اعتراض تھی۔

انہوں نے کہا کہ یتی، نسل کشی سنسد گینگ، نوپور، نوین وغیرہ نے اس کی حرکتوں کے عادی ہوچکے ہیں، تاہم بین الاقوامی مذمت اور عدالتوں کی مداخلت کے بعد ان کے خلاف کمزور کاروائی کی گئی۔ اس کے برعکس، مسلم طلباء، صحافیوں اور دیگر سماجی کارکنوں کو محض اس لیے جیل میں ڈال دیا گیا کیونکہ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔

''وہیں ہندوتوا تنظیموں کا یہ کلچر نفرت انگیز تقریر کرنا اور انتہا پسندی کو فروغ دینا ہے، مثال کے طور پر نفرت کے بدلے یوگی کو لوک سبھا کی نشستوں اور وزیراعلیٰ کے عہدے سے نوازا گیا۔ مودی کی نفرت انگیز تقاریر کو بھی اسی طرح انعامات سے نوازا گیا۔ درحقیقت جن لوگوں نے مجھے گولی مارنے کی کوشش کی۔ انھوں نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ ایسا اس لیے کیا، تاکہ وہ ممتاز ہندوتوا سیاست دان بن سکیں، اب یہ کلچر ختم ہونا چاہئے۔''

یہ بھی پڑھیں:

Delhi Police Case Over Hate On Social Media: نفرت پھیلانے کے الزام میں اسدالدین اویسی، نُپور شرما، صبا نقوی، نوین جندل و دیگر کے خلاف مقدمہ درج

حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ نے بی جے پی اور وزیراعظم نریندور مودی پر بھی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر مودی مخلص ہوتے تو وہ فرضی توازن میں ملوث نہیں ہوتے بلکہ نفرت انگیز تقاریر کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرتے اور نسل کشی کی دھمکی دینے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے انہیں غیرضمانتی سخت قانون کے تحت جیل میں ڈال دیا جاتا تو ملک کے لیے بہتر ہوتا۔'

ABOUT THE AUTHOR

...view details