امریکہ کے 20 سے زائد قانون سازوں نے اسلاموفوبیا کو ایک عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ قانون سازوں نے خط لکھ کر کہا ہے حکومت آئندہ برس کی انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں ریاست میں اسلامک فوبیا کے نام پر ہونے والے تشدد اور اس طرح کی مسلم خواتین پر ہونے والے حملوں کو باضابطہ طور پر شامل کیا جائے۔
امریکہ کے چوبیس سے زائد سے قانون سازوں کے ایک گروپ نے سکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو خط لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے چین، بھارت اور میانمار سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں آباد مسلمانوں کے خلاف حملوں میں اضافہ پر نظر رکھنے اور اس کے سد باب کے لیے ایک خصوصی نمائندے کی تقرری کرنے کی درخواست کی ہے۔
اسلامو فوبیا کو ایک "عالمی مسئلہ" قرار دیتے ہوئے قانون سازوں نے اپنے خط میں امریکی حکومت کو دنیا بھر میں اس پریشانی کا مقابلہ کرنے اور اس مسئلہ کے حل کے لئے ایک جامع حکمت عملی پر بھی زور دیا ہے۔
انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کیا کہ آئندہ برس کی انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں ریاست میں اسلامو فوبک تشدد اور اس طرح کی دیگر حملوں اور واقعات کو شامل کرتے ہوئے الگ سے جگہ دی جائے۔
یہ خط امریکن اسلامک ریلیشنس کونسل (سی اے آئی آر) کی نئی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آیا ہے۔ اس میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ مسلم مخالف نفرتیں بڑھتی جارہی ہیں۔
تحقیقات کے مطابق صرف 2021 میں 500 سے زیادہ تحریری شکایات موصول ہوی تھیں۔
اس خط میں یہ لکھا گیا ہے کہ مئی اور جون کے مہینہ میں مسجد پر حملوں میں اچانک اضافہ ہوا تھا۔ ان میں مساجد میں توڑ پھوڑ اور نمازیوں پر حملے کی وارداتیں بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ باحجاب مسلم خواتین کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا گیا اور ان پر حملے بھی کئے گئے۔
قانون سازوں نے اپنے خط میں لکھا کہ "بین الاقوامی مذہبی آزادی اور انسانی حقوق سے وابستگی کے ایک حصے کے طور پر ہمیں اسلامو فوبیا کو ایک ایسے مسئلہ کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے جو دنیا بھر کے مختلف ممالک میں سر اٹھا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ سب کے لئے مذہبی آزادی کے حمایت میں مضبوطی سے کھڑا ہو اور اسلامو فوبیا کے عالمی مسئلہ پر اپنی توجہ مبذول کرے۔