راجیہ سبھا میں جمعرات کو اپوزیشن کے ارکان نے کسانوں کے بدتر معاشی حالات کے سلسلے میں شدید تشویش کا اظہار کیا اور حکومت سے احتجاج کرنے والے کسانوں سے بات چیت کرکے ان کے مسائل کو حل کرنے کی درخواست کی۔
کانگریس کے رہنما دگ وجے سنگھ نے ایوان میں صدر کے خطاب پر پیش شکریہ کی تحریک پر جاری بحث میں شامل ہوتے ہوئے کہا کہ تین زرعی اصلاحات کے قوانین کسان مخالف ہیں اور اس کے خلاف تحریک جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں جب لوگوں کے جذبات کو غداری کے طور پر دیکھا جاتا ہے تو وہاں سے تاناشاہی کی شروعات ہوتی ہے۔ جمہوریت میں احتجاج اہم ہوتا ہے۔
اپوزیشن کا حکومت سے ایک ہی مطالبہ: کسانوں کے مسائل حل کیے جائیں انہوں نے کہا کہ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں زرعی اصلاحات کی بات کہی تھی لیکن اسے عام اتفاق سے کیا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی اصلاحات بلوں پر ایوان میں بحث کے دوران اپوزیشن نے اسے سلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے اور منظور کرائے جانے کے دوران ووٹنگ کرانے کی مانگ کی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
سنگھ نے کہا کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے طویل عرصے تک اتحادی رہے شرومنی اکالی دل کے اہم لیڈر پرکاش سنگھ بادل نے بھی زرعی قوانین کی مخالفت کی ہے اور وزیراعظم کو خط لکھا ہے۔ اسی طرح سے بھارتیہ کسان سنگھ نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے لوگوں کو روزگار دینے، بیرونی ممالک سے کالا دھن واپس لانے اور بدعنوانی کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اسے پورا نہیں کیا گیا۔ اس کے برخلاف معیشت کی خراب صورتحال کے سبب غیر منظم شعبے، چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں میں 50 لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ بحران کے دوران ملک میں کئے گئے لاک ڈاؤن کو وفاقی ڈھانچے کے خلاف بتاتے ہوئے کہا کہ اسے چار گھنٹے کے دوران نافذ کردیا گیا اور ریاستوں سے بات تک نہیں کی گئی۔ اس دوران مزدوروں کو زبردست پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ نقل و حمل کے ذرائع کا فقدان ہونے کے سبب وہ پیدل ہی اپنے گاؤوں تک چلے گئے۔ اس دوران سینکڑوں افراد کی اموات ہوئیں۔
راشٹریہ جنتادل کے منوج کمار جھا نے کہا کہ کسان اپنا حق مانگ رہے ہیں وہ اپنے مفاد کے بارے میں بہتر جانتے ہیں۔ احتجاج جمہوریت کے زندہ رہنے کی مثال ہے لیکن راجدھانی میں احتجاج کے مقام کے نزدیک کیلیں لگادی گئی ہیں اور کھائی کھود دی گئی ہے۔ ایسا تو سرحدوں پر بھی نہیں ہوتا۔
مسٹر جھا نے کہا کہ کسان ریڑھ کے جیسے ہیں۔ حکومت کو کسانوں کا درد سمجھنا چاہیے۔ وہ سرد ترین راتوں سے احتجاج کر رہے ہیں اور ان کی پانی کی سپلائی بند کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسان ایک دن کے لئے ہڑتال پر گئے تو حکومت اور پارلیمنٹ بند ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ مشتعل کسانوں کو خالصتانی، پاکستانی اور نکسلی قرار دیا جارہا ہے، جو جمہوریت کا نوجوان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی ممبران سینٹرل ہال میں پارٹی جذبے سے بالاتر سوچتے ہیں لیکن وہ ایوان میں اپنی بات کہنے سے قاصر ہیں۔ مسٹر جھا نے کہا کہ ملک کاغذ پر بنا نقشہ نہیں ہے۔ ملک رشتوں سے بنا ہے۔ حکومت نے رشتہ ختم کئے ہیں۔
نامزد ممبر سوپن داس گپتا نے مشرقی خطے کے کسانوں کے لئے خصوصی مدد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بہار، مغربی بنگال، اڈیشہ اور جھارکھنڈ کے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے محنت کش کسانوں کی قابل رحم حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 30 فیصد سبزیاں کولڈ اسٹوریج کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے برباد ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے دیہی علاقوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ زرعی مصنوعات کی قدر میں اضافے اور نامیاتی کاشتکاری پر توجہ دی جانی چاہئے۔
مسٹر داس گپتا نے کہا کہ مغربی بنگال میں صرف نو سے دس فیصد کسانوں کو فصلوں کی کم ازکم امدادی قیمت ملتی ہے اور بعض اوقات انہیں 600 سے 700 روپے فی کوئنٹل دھان فروخت کرنا پڑتا ہے۔ پردھان منتری کسان سمان نیدھی اسکیم کا فائدہ مغربی بنگال کے کسانوں کو نہیں مل رہا ہے۔
تیلگو دیشم پارٹی کے کنک میدلا رویندر کمار نے آندھرا پردیش میں کسانوں کی تحریک کا معاملہ اٹھایا۔ ریاستی حکومت کے کام کی تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معاشی بحران پیدا ہوگیا ہے۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے جنتادل (سیکولر) کے لیڈر اور سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں کہا کہ حکومت کو کسانوں کے مسائل سلجھانے کے لئے سنجیدہ اور مسلسل کوششیں کرنی چاہئیں۔
مسٹر دیوے گوڑا نے ایوان میں صدر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کسانوں کو روکنے اور ان کی قلعہ بندی کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس سے مسائل کا حل نہیں نکلے گا۔ حکومت کو کسانوں کے ساتھ مسلسل مذاکرات قائم رکھنے چاہئیں۔
انہوں نے کاہ کہ ملک میں 90 فیصد چھوٹے اور حاشئے کے کسان ہیں۔ ان کے پاس ایک ایکڑ یا اس سے بھی کم زمین ہے۔ ان کو سبسڈی وغیرہ کا بھی فائدہ نہیں مل پاتا۔
انہوں نے اعداد و شمار کے ذریعہ بتایا کہ 50 فیصد زرعی سبسڈی ٹریکٹر، دیگر زرعی آلات اور تکنیک وغیرہ کو خریدنے میں دی جاتی ہے۔ چھوٹے کسانوں کو اس سبسڈی کا کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ انہوں نے کاہ کہ سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ پنجاب کے کسانوں کو ملا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت نے کسانوں کے مفادات کے لئے کئی اقدام اٹھائے ہیں۔ اس سے قبل بھی منموہن حکومت اس سمت میں کوششیں کرتی رہی تھی۔ لیکن چھوٹے کسانوں کے مسائل کا حل آسان نہیں ہے۔ اس سمت میں حکومت کو سنجیدہ اور مسلسل کوششیں کرنی ہوں گی۔ موجودہ حکومت نے تینوں زرعی قوانین کے ذریعہ بچولیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے جو آسانی سے ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے حکومت کو کسانوں سے راست مذاکرات کرنے ہوں گے۔
انہوں نے یوم جمہوریہ کے دن دلی میں تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شرپسند عناصر کو سخت سزا دی جانی چاہیے لیکن اس کی آڑ میں کسانوں کو اذیت نہیں دی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ تینوں زرعی قوانین کو منظور کرنے سے قبل حکومت کو ریاستی حکومتوں کے ساتھ صلاح مشورہ کرنا چاہیے تھا۔ اگر حکومت ایسے اقدام اٹھاتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ مسٹر دیوے گوڑا نے اس موقع پر کاویری دریا بیسن کا معاملہ بھی اٹھایا اور اس کے تصفیہ کا مطالبہ کیا۔