علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا جب بھی نام زبان پر آتا ہے تو سب سے پہلی تصویر سرسید احمد خان کی، پھر اردو زبان کی آتی ہے لیکن گذشتہ کچھ سالوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ اردو زبان کا استعمال یونیورسٹی کے مختلف مقامات پر نہیں کیا جا رہا ہے۔ ان دنوں اردو زبان کے ساتھ سوتیلے سلوک کے الزامات لگتے رہے ہیں، چاہے وہ یونیورسٹی کے مختلف تقریب کے پوسٹر بینر، دعوت ناموں، یونیورسٹی کی عمارات اور انتظامیہ کے مختلف دفاتر کے لیٹر پیڈ ہی کیوں نہ ہوں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد 9 اپریل 2019 کو یونیورسٹی کے رجسٹرار عبدالحمید (آئی پی ایس) نے ایک نوٹس جاری کیا تھا جس میں ہدایت دی گئی تھی کہ یونیورسٹی کے سبھی آفیشل دفتر کے لیٹر پیڈ پر تینوں زبانیں انگریزی، ہندی اور اردو کا استعمال کیا جائے گا حالانکہ خود اس نوٹس پر ہی اردو کو جگہ نہیں دی گئی تھی۔ نوٹس کے بعد بھی یونیورسٹی کے کنٹرولر دفتر، پی آر او دفتر کے لیٹر پیڈ پر بھی اردو دکھائی نہیں دیتی۔
اردو سے متعلق اے ایم یو رجسٹرار کی ہدایت پر عمل نہیں تین روز قبل یعنی 9 نومبر 2021 کو یونیورسٹی کنٹرولر کی جانب سے ایم بی بی ایس اور پی ڈی ایس کے داخلے سے متعلق ایک نوٹس شائع کیا گیا، جس میں انگریزی اور ہندی تو موجود ہے لیکن اردو نہیں ہے۔
اردو سے متعلق اے ایم یو رجسٹرار کی ہدایت پر عمل نہیں یہ بھی پڑھیں:
اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق نائب صدر حمزہ سفیان کا کہنا ہے کہ کئی مرتبہ اردو کے لیے آواز اٹھائی گئی ہے۔ ایک مرتبہ خود رجسٹرار عبدالحمید نے ایک نوٹس شائع کی، جس میں ہدایت دی گئی تھی کہ یونیورسٹی کے آفیشل لیٹر پیڈ پر اردو کا بھی استعمال کیا جائے۔ اس کے بعد خود رجسٹرار دفتر، کنٹرولر دفتر اور مختلف دفاتر کے لیٹر پیڈ پر اردو کو جگہ نہیں دی جاتی، صرف وہ نوٹس نکل کر رہ گیا۔ اس پر کسی طرح کا عمل نہیں ہوا، اس کے بعد یونیورسٹی پی آر او دفتر کی جانب سے سر سید احمد خاں کی یوم پیدائش کے موقع پر قومی مضمون نویسی مقابلہ جو صرف انگریزی زبان میں کرایا گیا تھا، جس کو ہم لوگوں نے کہا تھا کہ اس کو اردو میں بھی کرایا جائے تو اس کو بھی اردو میں نہیں کرایا گیا۔ دو روز قبل عالمی یوم اردو تھا، اس موقع پر اردو میں مضمون نویسی مقابلہ کر سکتے تھے، دیگر مقابلے یا تقریب کر سکتے تھے لیکن انتظامیہ نے اس پر بھی کچھ نہیں کیا۔
اردو سے متعلق اے ایم یو رجسٹرار کی ہدایت پر عمل نہیں حمزہ سفیان نے مزید کہا کہ ہم لوگ ہمیشہ سے کہتے ہیں کہ اس یونیورسٹی میں اردو کو اور ہمارے کلچر کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن انتظامیہ اس پر کسی بھی طرح کا کوئی کام نہیں کر رہا، نہ ہی کوئی حل نکل رہا صرف نوٹس جاری کیے جارہے ہیں لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہورہا۔
9 اپریل 2021 کو یونیورسٹی رجسٹرار کی جانب سے جاری ہدایت کے باوجود یونیورسٹی کے آفیشل دفاتر کے لیٹر پیڈ پر اردو کا استعمال نہیں کیا جا رہا ہے، جس کو دیکھ کر یونیورسٹی طلبہ رہنما حمزہ سفیان نے انتظامیہ پر الزامات کرتے ہوئے کہا کہ اردو اور کلچر کو یونیورسٹی سے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔