نئی دہلی: ممتازادیب اور ڈرامہ نویس پروفیسر اصغروجاہت نے کہا کہ مولوی محمدباقر کی عظیم قربانی کو یاد رکھنے کے ساتھ ہمیں اس کردار کو بھی زندہ کرنا چاہئے جو اردو زبان نے ملک کی آزادی کی لڑائی میں ادا کیا ہے یہ بات انہوں نے ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میں جام شہادت نوش کرنے والے عظیم صحافی مولوی محمدباقر کے یوم شہادت پر آج یہاں پریس کلب یں یادگاری خطبہ پیش کرنے کے دوران کہی۔Asghar Wajahat On Maulvi Muhammad Baqir
انہوں نے کہا کہ تاریح ہمارے گھر کا پتہ ہوتی ہے، اگر ہم نے اسے فراموش کردیا تو ہم اپنے گھر تک نہیں پہنچ پائیں گے۔یادگاری خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر اصغر وجاہت نے کہا کہ مولوی محمد باقر کی عظیم قربانی کو یاد کرنے کے ساتھ ہمیں کچھ اہم نکات پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے، تحریک آزادی میں اردو کی اہمیت اور اس کے تعاون کو آج کی نئی نسل نہیں جانتی،آزادی کے بعد ملک میں اردو کے ساتھ کیا ہوا ہم سبھی جانتے ہیں، اگر ہم اردو والے، تحریک آزادی میں اردو کے تعاون کی بات نہیں کریں گے تو بیرون ممالک کواس سے کیاغرض ہوگی وہ نہ تو اس پر بات کریں گے اور نہ ہی کام کریں گے، یہ کام ہم لوگوں کو کرناہے۔انہوں نے کہا کہ مولوی محمد باقر کے حوالے سے پریس کلب نے جو پروگرام رکھاہے اس کو بڑے پیمانے پرکرنے کی ضرورت ہے ہندی اور دیگر زبانوں میں بھی ان کی قربانی کو یاد کیاجائے تاکہ وہ ان کی قربانی لوگوں کے سامنے آسکے یہ بڑی اہم بات ہوگی۔
پروفیسر اصغر وجاہت نے مزید کہا کہ 1857کے زمانے کو یاد کرکے ہمیں آج کے زمانے کو سمجھنے میں مددملتی ہے، ایک بڑے مورخ نے کہا تھا کہ تاریخ ہمارے گھر کاپتہ ہے، اگر ہم اپنی تاریخ کو نہیں سمجھیں گے تو ہم اپنے حال کو نہیں سمجھ سکتے، 1857 کے تعلق سے انگریزوں نے کہا تھاکہ یہ فوج اور سپاہیوں کی بغاوت تھی، ایسا نہیں تھا بلکہ یہ عوام کی بغاوت تھی کیوں کہ اس میں سماج کا ہر طبقہ شامل تھااس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طوائف سے لے کر مولوی تک سبھی لوگ آزادی کی لڑائی میں شامل تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم مولوی محمد باقر کی قربانی کویاد کرتے ہیں تو 1857کی ٹریجڈی سے ہمیں جو سبق ملتے ہیں ہم ان کو یاد کرتے ہیں، یہ سوچ کر ہمارے اندر طاقت آتی ہے کہ ہم نے جو کام کیا ہے وہ بے مثال کام ہے، مولوی باقر صرف ایک اخبار نویس نہیں تھے بلکہ وہ لوگوں کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرنے اور ان کی رہنمائی کرنے کا کام بھی کرتے تھے۔
پروفیسر اصغر وجاہت نے کہا کہ محمد باقر اور اس زمانے کے صحافیوں پر کام کرنے کا مطلب اس عہد کو سمجھنا اور اس کے بعد اس موجودہ زمانہ کو جاننا بہت ضروری ہے، مولوی باقرکی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ انسانیت نواز تھے،یہ جانتے ہوئے کہ انگریزوں کے خلاف ہم لڑائی لڑ رہے ہیں انہوں نے دلی کالج کے وائس پرنسپل ٹیلر کی جان بچانے کی کوشش کی، ان کی کوشش یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کا وژن کتنا بڑا تھا۔
قبل ازیں تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے سینئر صحافی معصوم مراد آبادی نے کہا کہ ہندوستان میں اردو صحافت کی تاریخ بڑی ولولہ انگیز رہی ہے۔1907میں الہ آباد سے ایک ہفتہ واری اخبار نکلا جس کا نام’سوراجیہ‘ تھا، اس اخبار کے 9 ایڈیٹرس کو کالا پانی کی سزا ہوئی تھی، ایک ایڈیٹر آتا وہ اداریہ لکھتا اور اس کو کالا پانی بھیج دیاجاتا، ایک ایڈیٹر ایسا بھی تھا جس نے تین اداریہ لکھے اوراسے تیس سال کی سزادے کرکالا پانی بھیجا گیا۔اس اخبار کے سبھی 9 ایڈیٹرس کی مجموعی سزا 94 سال تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مولوی محمد باقر ہندوستان میں کسی بھی زبان کے پہلے صحافی تھے جنہیں انگریزوں نے سزا موت دی تھی، انہیں پھانسی پر نہیں چڑھایا گیا بلکہ آج ہی کے دن 16 ستمبر کو دہلی میں خونی دروازہ کے پاس توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑا دیا گیااور ان کے جسم کے چیتھڑے اڑ گئے، اس وقت ان کی عمر 77 برس تھی۔ معصوم مراد آبادی نے کہا کہ تحریک آزادی میں مولوی محمد باقرکاکردار صرف ایک اخبار نویس کاکردار نہیں ہے بلکہ انہوں نے بہادرشاہ ظفر کے معاون کے طور پر جو کردار اداکیا ہے وہ بھی بڑی اہمیت کاحامل ہے۔وہ عربی اور فارسی کے بڑے اسکالرتھے، کئی انگریزوں کوانہوں نے عربی اور فارسی پڑھائی تھی۔