بی جے پی کی سابق قومی ترجمان نوپور شرما ان دنوں سرخیوں میں ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں ان کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ لوگ مسلسل ان کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دراصل 27 مئی کو نوپور شرما نے ایک نجی ٹی وی چینل پر ڈیبیٹ کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا جس کے بعد ملک سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں نے ان کے خلاف مظاہرہ کیا۔ نوپور شرما کے قابل اعتراض بیان پر کویت، قطر، ایران، سعودی عرب، ترکی، پاکستان اور انڈونیشیا سمیت کئی ممالک اور عالمی اسلامی تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ Gulf countries reaction on prophet remark
نوپور شرما کا بیان شاید نظر انداز ہوجاتا، اگر آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے اس کا ویڈیو ٹویٹر کے ذریعہ ٹرینڈ میں نہ لایا ہوتا۔ اندرون ملک اس متنازع بیان پر احتجاج ہوا، مزمتی بیانات سامنے آئے لیکن حکمران جماعت نے اپنی لیڈر پر کوئی کارروائی نہ کی۔ تاہم یہ صورتحال تب بدل گئی جب اسلامی ممالک میں اس دریدہ دہنی کے خلاف ردعمل ہونے لگا۔ کویت، قطر اور ایران نے دل آزار بیان پر ان ممالک میں مقیم بھارتی سفیروں کو طلب کیا اور حکومت ہند سے معافی کا مطالبہ کیا۔ اس دوران عرب ممالک کی عوام نے بھی بھارت پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔
اِس ردعمل کے ساتھ ہی ملک بھر میں نوپور شرما کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا تھا۔ اترپردیش، بہار، رانچی، حیدرآباد اور جموں و کشمیر سمیت ملک کی دیگر ریاستوں میں مسلمانوں نے اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ مظاہروں کے دوران بعض ریاستوں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ سب سے پہلا پرتشدد مظاہرہ کانپور میں ہوا، جہاں 3 جون کو بعد نماز جمعہ کے بعد مسلمانوں نے سڑکوں پر نکل کر بی جے پی ترجمان کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ مظاہرین نے بطور احتجاج بازار بند کرنے کی اپیل کی۔ اس دوران اکثریتی فرقے سے وابستہ بعض دوکانداروں نے اعتراض کیا جس کے بعد دونوں برادریوں میں جھڑپ ہوگئی اور پتھربازی بھی ہوئی۔ اس جھڑپ میں تقریبا 40 افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس سلسلے میں کانپور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے تقریبا 800 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جب کہ 18 لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔ پولیس کی اس کارروائی پر متعدد سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اترپردیش کی پولیس یک طرفہ کارروائی کر رہی ہے۔ کانپور تشدد کے بعد ملک کے حالات تیزی سے خراب ہونے لگے اور آہستہ آہستہ یہ احتجاج ملک کی دیگر ریاستوں میں پھیلنے لگا، جس کے پیش نظر مسلم ممالک اور بھارت کے سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماوں نے بی جے پی پر نوپور شرما کے خلاف کارروائی کرنے کا دباو ڈالا۔
کانپور احتجاج اور خلیجی ممالک کے ردعمل کے بعد پہلی بار بی جے پی کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ چنانچہ 5 جون کو پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ نوپور شرما کو چھ سال کے لیے پارٹی سے معطل کررہی ہے جب کہ ایک اور پارٹی رہنما نوین جندل کو پارٹی کی رکنیت سے ہی خارج کردیا۔ جندل نے ایک ٹویٹ میں پیغمبر اسلام کے خلاف ناشائستہ الفاظ کا استعمال کیا تھا جسے بعد میں انہوں نے ڈیلیٹ کردیا۔
حکومت نے اس معاملہ میں صفائی دیتے ہوئے کہا اس طرح کے لوگ '' فرنج الیمنٹ' ہیں اور حکومت تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے۔ پارٹی سے معطل ہونے کے بعد نوپور شرما نے ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے ایک معافی نامہ لکھا اور کہا کہ میرا مقصد کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا اور اگر میرے بیان سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو میں اپنا بیان واپس لیتی ہوں۔
کانپور تشدد کے بعد پولیس کی یک طرفہ کارروائی نے تیل میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔ ملک کے مسلمان اپنے غم و غصہ کا اظہار سوشل میڈیا پر کرنے لگے اور متعدد ہیش ٹیگ کے ساتھ کئی ٹویٹس کیے، جس کے بعد او آئی سی نے بھی اس معاملہ کا نوٹس لیا۔ 6 جون کو خلیجی ممالک کی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) نے اپنے بیان میں بھارت میں پیغمبر اسلام کی حالیہ توہین کی شدید مذمت کی۔ او آئی سی نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت میں مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے۔