بنگلور: ریاست کرناٹک کے گدگ ضلع کے نرگند گاؤں میں بتاریخ 17 جنوری کو آر ایس ایس و اس کی ذیلی تنظیم بجرنگ دل کی جانب سے ایک دھرم نسسد کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں مبینہ طور پر بجرنگ دل کے ورکرز نے مسلم مخالف نفر انگیز بیانات دیے۔ جس کے نتیجے میں اسی رات کو کم و بیش 15 بجرنگ دل کے ورکرز نے سمیر اور شمشیر کو گھر لوٹتے وقت پکڑ لیا اور ان پر تریشول و تلوار جیسے دھاردار ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ اس حملے میں سمیر نامی 19 سالہ نوجوان اگلے دن ہسپتال میں جاں بحق ہوا جبکہ شمشیر شدید زخمی ہوا جو کہ اب بھی زیر علاج ہے۔
اس پورے معاملے کی تفصیل جاننے و متاثرین کی امداد کی غرض سے کرناٹک مسلم متحدہ محاذ کے ایک وفد جس میں دانشوران، علماء کرام و وکلاء رہے، نرگند گاؤں کا دورہ کیا اور متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ پولیس و دیگر اہلکاروں سے بھی ملاقات کر معلومات حاصل کی۔ وفد نے مقتول کے گھروالوں کو 1 لاکھ روپے اور زخمی شخص کے اہل خانہ کو 50 ہزار روپے امداد کی۔
اس پورے معاملے پر بات کرتے ہوئے جمعیت العلماء کرناٹک کے صدر مولانا افتخار قاسمی نے بتایا کہ نرگند کا سانحہ ایک منظم سازش تھی، جس کے تحت پہلے ایک دھرم سنسد منعقد کیا گیا، جس میں ہندو سماج کے افراد کے دلوں میں مسلم سماج کے خلاف نفرت بھری گئی اور پھر مسلمانوں پر حملے کا منصوبہ بناکر اسی رات کو حملہ کیا گیا جس میں ایک مسلم نوجوان کی جان چلی گئی۔
اس معاملے کے متعلق ایڈووکیٹ محمد نیاز نے بتایا کہ نرگند واقعہ میں پولیٹیکل انفلوئینس صاف طور پر نظر آرہا ہے۔ کیوں کہ سمیر نامی نوجوان کے قتل کے تقریباً 1 ہفتہ بعد بھی پولیس کی جانب سے نہ ہی مقتول کے اہل خانہ سے اور نہ ہی زخمی شخص شمشیر کا بیان لیا گیا۔ نیاز نے بتایا کہ اب تک صرف 4 ملزمین کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ اس پورے دھرم سنسد اور قاتلانہ حملے کے معاملے میں تقریباً 15 افراد ملوث ہیں۔