نئی دہلی: بھارت کے لیے07؍اگست،2021 کا دن ایک فخریہ لمحہ تھا، جب نیرج چوپڑا نام کےایتھلیٹ کے جیولن (برچھی)نے ہمیں ٹوکیو اولمپکس میں طلائی تمغہ دلایا تھا لیکن اس کے پیچھے ایک اور کہانی ہے جسے سرخیوں میں جگہ نہیں ملی، اور وہ یہ ہے کہ نیرج نے اس برچھی کی نیلامی سے ملنے والا پیسہ نمامی گنگے پروگرام کے لیے عطیہ کر دیا تھا۔ یہ روایت وزیر اعظم نے شروع کی تھی۔ اس پروگرام کے لیے وزیر اعظم کو موصول ہونے والے تحائف کی نیلامی اس میں ان کی ذاتی شمولیت اور حکومت کے بے پناہ عزم اور یقین کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی طرح، 15 دسمبر 2022 کو اس عزم کو ایک اور بڑی کامیابی حاصل ہوئی جب اقوام متحدہ نے اسے دنیا کے 10 بہترین ماحولیاتی نظام کی بحالی کے پروگراموں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا۔ من کی بات میں وزیر اعظم نے بجا طور پر کہا کہ یہ ملک کی''قوت ارادی اور انتھک کوششوں‘''کا ثبوت ہے اور دنیا کو ایک نئی راہ دکھاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی وزیر برائے جل شکتی گجیندر سنگھ شیخاوت نے یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں کیا۔ Shekhawat Says Namami Gange is Nirmal and Viral Witness To The Country
انہوں نے کہا کہ نمامی گنگے کی کہانی 2014 میں شروع ہوئی جب وزیر اعظم نے دریائے گنگا کی شان کو بحال کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔اویرل (غیر محدود بہاؤ)اور نرمل(غیر آلودہ بہاؤ)گنگا کے وژن سے پرجوش ہو کر، ایک جامع اور مربوط نقطہ نظر کا آغاز کیا گیا۔ اس نقطہ نظر کو جن گنگا (عوام کی شرکت اور لوگوں کا دریا سے رابطہ)، گیان گنگا (تحقیق اور علم کا انتظام)اور ارتھ گنگا(ذاتی پائیداری پر مبنی اقتصادی ماڈل)کے تین زاویوں سے مزید تقویت ملی۔ انہوں نے کہا کہ اب تک، سیوریج ٹریٹمنٹ انفراسٹرکچر، ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ، ندی کی سطح کی صفائی، حیاتیاتی تنوع کا تحفظ، جنگلات کے لیے شجرکاری، عوامی بیداری، صنعتی فضلے کی نگرانی، ارتھ گنگا سمیت 32,898 کروڑ روپے کے 406 پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے۔ ان میں سے 225 پروجیکٹ مکمل ہو چکے ہیں، باقی پروجیکٹ تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ گنگا طاس میں 5,270 ایم ایل ڈی ٹریٹمنٹ کی گنجائش اور 5,211 کلومیٹر کے سیوریج نیٹ ورک کی تعمیر کے لیے تقریباً 177 سیوریج انفراسٹرکچر پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے۔ ان میں سے سیوریج مینجمنٹ کے کئی پروجیکٹ مکمل ہو چکے ہیں۔
مرکزی وزیرنے کہا کہ حاصل شدہ ابتدائی مرحلے کے ایک بڑے حصے کے ساتھ، نئے جوش اور قیمتی تجربے سے لیس، ہم نمامی گنگے 2 کی شروعات کر رہے ہیں، جسے اب دریائے یمنا اور ذیلی معاون ندیوں جیسے کالی، گومتی، ہنڈن، دامودر وغیرہ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروگرام کی کامیابی کے پیچھے ایک بڑی وجہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ(ایچ اے ایم-پی پی پی)کے تحت ہائبرڈ اینوئٹی ماڈل ہے، جو کہ گندے پانی کے شعبے میں اب تک ایک نامعلوم طریقہ ہے۔ ایچ اے ایم ماڈل کے تحت ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعمیراتی لاگت کا 40 فیصد حکومت آپریٹرز کو ادا کرتی ہے اور باقی رقم ان کی کارکردگی کے معیارات کا جائزہ لینے کے بعد 15 سال کی مدت میں جاری کی جاتی ہے۔ اسی طرح، ''ایک شہر ایک آپریٹر ماڈل'' متعارف کرایا گیا ہے جس میں شہر بھر میں سیوریج ٹریٹمنٹ کے لیے ون اسٹاپ حل کا تصور کیا گیا ہے۔ ایچ اے ایم جہاں ایک طرف آپریٹرز کی لگن، کارکردگی اور پائیداری کو یقینی بناتا ہے، وہیں دوسری طرف 'ایک شہر، ایک آپریٹر' واحد ملکیت اور جوابدہی کو یقینی بناتا ہے۔
صنعتی آلودگی میں کمی کے لیے، زیادہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں(جی پی آئی) کی نشاندہی کی گئی ہے اور معروف تھرڈ پارٹی تکنیکی اداروں کے ذریعے ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں صنعتوں کی طرف سے تعمیل میں بہتری آئی ہے۔ اس کی ایک شاندار کامیابی کانپور میں جاج مئو ٹینری کلسٹر (ملک میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا)کے لیے 20 ایم ایل ڈی کامن ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس (سی ای ٹی پی) کی تعمیر ہے۔ اس تبدیلی میں مثبت تعاون کے لیے، نمامی گنگے پروگرام کے تحت، پہلی بار، اکتوبر 2018 میں ای- فلو نوٹیفکیشن کے ذریعے اپنے پانی پر دریا کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ مرکزی وزیرنے کہا کہ پروگرام کے تحت سامنے آنے والے مثبت نتائج کو ملک کے دیگر دریاؤں کے لیے ماڈل بحالی کے پروگرام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کئی مقامات پر گنگا کے پانی کے معیار میں نمایاں بہتری اس کی کامیابی کی گواہی دیتی ہے۔ سال 2018 میں دریا کے مرکزی حصے میں چار آلودہ مقامات تھے، جب کہ 2021 میں ان میں سے کوئی بھی حصہ ترجیحی I (30 ایم ایل > بی او ڈی) سے IV (10-6 > بی او ڈی) میں نہیں ہے اور صرف دو حصے کم از کم آلودگی والی ترجیح V (6-3 > بی او ڈی) میں ہیں۔