نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کل شام لاء کمیشن کے نوٹس پر اپنے اعتراضات درج کرا دیئے، جس نے ملک کی مذہبی تنظیموں اور شہریوں سے نمائندگی کی شکل میں ’یکساں سول کوڈ کے بارے میں خیالات اور نظریات‘ داخل کرنے کی درخواست کی تھی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ’’ یونیفارم سول کوڈ پر لاء کمیشن کے بارے میں ہمارا جواب 5 نکات پر مبنی ہے، جس میں 1۔ ابتدائی ایشوز 2۔ اکیسویں لاء کمیشن پر ہمارا جواب اور رپورٹ 3۔ یکساں سول کوڈ پر ہمارے اعتراضات کے دلائل 4۔ موجودہ سول قوانین کا جائزہ اور 5۔ جوابات کا خلاصہ شامل ہیں۔
جواب کے پہلے حصے میں، بورڈ نے ابتدائی اعتراضات کو تفصیل سے بیان کیا ہے جس میں کہا گیا کہ لاء کمیشن کا نوٹس بہت مبہم، عمومی اور غیر واضح ہے۔ متعلقہ حصہ میں کہا گیا کمیشن کے سوال میں تجاویز کی شرائط غائب ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اتنے بڑے ایشو کو پبلک ڈومین میں محض اس لیے ڈالا گیا تاکہ اس پر ریفرنڈم کروایا جا سکے اور کوشش یہ کی گئی کہ عام لوگوں کا ردعمل بھی کمیشن تک مبہم الفاظ میں یعنی 'ہاں' یا 'نہیں' میں ہی پہنچ سکے۔ متعدد وجوہات کی بناء پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ باوجود یہ کہ یہ مسئلہ خالصتاً قانونی ہے تاہم سیاست اور میڈیا کے پروپیگنڈے کے لئے اس کی حیثیت چارہ کی بھی ہے۔
یہ مسئلہ اس لئے بھی مزید اہم ہو جاتا ہے کہ اس پر سابقہ لاء کمیشن نے جائزہ لے کر یہ نتیجہ نکالا تھا کہ یونیفارم سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے کہ 22ویں لاء کمیشن کو اس پر عوامی رائے لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی جب کہ اس کے پاس کوئی بلیو پرنٹ بھی نہیں ہے جس سے یہ اندازہ کیا جاسکے کہ کمیشن کا ارادہ کیا ہے۔
مسلمانوں کی مذہبی اساس، قرآن مجید، سنت رسول اور فقہ (اسلامی قانون) ہے جس کو بھارت کے دستور کی دفعہ25 اور 26 سے تحفظ حاصل ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ قرآن و سنت میں بیان کئے گئے احکام پر عمل کریں۔ اسلام کے پیروکار بھی اپنے آپ کو ان احکام کے پابند سمجھتے ہیں اور یہ تمام امور ناقابل تبدیل شرائط ہیں۔ مسلمانوں کے ذاتی و اجتماعی تعلقات، ان کے خاندانی معاملات و شخصی قوانین بھی، براہ راست قرآن و سنت (اسلامی قوانین) سے ماخوذ ہیں اور یہ پہلو ان کی بنیادی شناخت سے جڑا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
بھارت کے مسلمان اس شناخت سے دست بردار ہونے پر کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہو سکتے نیز اس کی ہمارے ملک کے آئینی دائرے میں پوری گنجائش بھی ہے۔ اگر ہم اقلیتوں اور قبائلی طبقات کو ان کے پرسنل لاء اور رواجی قانون کے تحت زندگی گزارنے کا موقع دیتے ہیں تو گویا اپنے ملک کے تنوع کے ساتھ انصاف کرتے ہیں اور اس سے ملک کی سالمیت، تحفظ، سلامتی اور بھائی چارے کو بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
جواب کے دوسرے حصے میں، بورڈ نے اس مسئلہ پر 21 ویں لاء کمیشن کو دیئے گئے اپنے تفصیلی جواب کو دہرایا اور اس کو بھی اس دستاویز کے ساتھ منسلک کر دیا۔
جواب کے تیسرے حصے میں ملک کی تکثیری حیثیت، وسیع تنوع اور کثیر ثقافتی حیثیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی مزید براں اس حصہ میں سیکولرازم، حقوق نسواں اور مساوات کے اصول، قومی یکجہتی اور سپریم کورٹ کے مشاہدات سے پیدا شدہ مسائل پر تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا۔ خلاصہ کے طور پر اس میں کہا گیا؛ ’’ملک کے مختلف طبقات کے ذریعہ متعدد پرسنل لاء اور روایتی قوانین پر عمل در آمد در اصل آئین کے آرٹیکل 25، 26 اور 29 مذہبی و ثقافتی حقوق کے مطابق ہے۔ مختلف طبقات، مذہبی اکائیوں اور قبائل کے مذہبی و ثقافتی اصولوں کے مطابق ایسے قوانین کا ان پر اطلاق ہمارے ملک کی مضبوط جمہوریت اور تنوع کی روشن مثال کے جشن کے طور پر منایا جانا چاہیے“۔
جواب کے چوتھے حصے میں، موجودہ سول قوانین اور اس کی نام نہاد یکسانیت پر بحث کی گئی۔ جواب میں کہا گیا کہ، ’’ہم یہ حقائق اس بات کی نشاندہی کے لیے پیش کر رہے ہیں کہ موجودہ قوانین میں بھی مذہبی اصولوں اور رسوم و رواج اور قبائلی استثنیٰ کی عکاسی جھلکتی ہے جس سے مذہبی و ثقافتی تنوع اور رسوم و رواج کی ناقابل تنسیخ پوزیشن واضح اور متیعن ہو جاتی ہے جس کو اس طرح کے ضابطوں (یونیفارم سول کوڈ) کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا۔