راشٹریہ جنتادل کے رہنما منوج کمار جھا نے جموں و کشمیر کے بجٹ پر بحث کے دوران راجیہ سبھا میں جذباتی بیان دیے۔ اس موقع پر انہوں نے 5 اگست 2019 کا ذکر تے ہوئے کہا کہ' تاریخ طے کرے گی کہ کیا کھویا کیا پایا۔ دقتیں آپ کے وقت نہیں ہے ایسا نہیں ہے، پہلے بھی تھی اور بہت دقتیں تھیں'۔ Manoj Jha's speech on Kashmir Files
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ' کشمیر میں ایک مین اسٹریم ہوا کرتا تھا۔ دفعہ 370 کے ہٹانے سے کیا کھویا کیا پایا یہ تاریخ طے کرے گی، اس مین اسٹریم کو ذبح کردیا گیا۔ قتل کردیا گیا۔ وہ مین اسٹریم موقع محل سے غائب ہوگیا۔'
آپ کو بھی دقتین اس لیے آرہی ہیں کیوں کے آپ نے وہاں سے کشمیریت کو ختم کردیا۔ پھر اس کا قتل کردیے اور آج حالات بالکل مختلف ہے۔'
انہوں نے ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ایک کشمیر کا سپاہی کہتا ہے کہ' ہم نہ تو اپنوں کا ہو سکے اور نہ ہی ہم پر بھارت کے اعلی اہلکاروں کا اعتماد ہے۔ یہ جو کشمیر میں اعتماد ختم ہوا یہ تشویش کی بات ہے۔ میں نہیں سمجھا ہوں کہ آپ کے لیے تشویش کی بات نہیں ہوگی۔ لیکن آپ کے سر میں شکن نہیں ہے۔ یہ ہمارے کے لیے تشویش کی بات ہے۔'
اس موقع پر انہوں نے کشمیری پنڈتوں کی مبینہ انخلاء کی کہانی پر بننے والی فلم ' دا کشمیر فائلز' پر بات کرتے ہوئے کہاکہ' میں ذاتی طور پر کوئی مخالفت نہیں کررہا ہوں، بلکہ دردناک سانحہ پر دستاویز ہو۔ میں نے خود دیکھی ہے وہ فلم۔ میں پرزانیہ بھی دیکھی ہے۔ میں نے رام کے نام بھی دیکھی ہے، میں نے ٹرم آف ول دی ویل دیکھی ہے، میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اس ملک کے، بھارت ماتا کی چھاتی پر بہت داغ ہے، سنہ 47 کا تمس دستاویز۔ اس کے بعد سنہ 83 میں نلی ہوتا ہے، 84 میں سکھ کے ساتھ ہوتا ہے، 2002 میں گجرات ہوتا ہے، یہ سارے داغ ہیں، کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ساتھ یہ سارے داغ، گھاؤ یہ ہمیں مفاہت سے بھرنے ہوں گے'۔
ایک گھاؤ اور دوسرے گھاؤ کے درمیان تیزاب ڈال کر آپ کچھ نہیں حاصل کریں گے۔ بھارت ماتا اور لہو لہا ہوگا۔ جب لہو لہان ہوگی تب کچھ نہیں بچے گا۔ کیوں کہ ووٹ کی فصل کی قیمت ایک حد تک ہوتی ہے۔'
میں کل پارلیمنٹ میں نہیں رہوں گا، آپ میں سے بھی کئی لوگ نہیں رہیں گے، لیکن کشمیر ہوگا۔ کشمیرت ہوگی، انسانیت ہوگی کیوں کہ' اٹل جی سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ آپ کے پارٹی میں سب سے بڑے رہنما تھے۔ انتخابات بھلے ہی کوئی اور جیت جائے، لیکن آپ کی پارٹی کے سب سے بڑے رہنما اٹل بہاری واجپئے تھے اور رہیں گے۔ ٹل جی نے نہ صرف بولا، لکھا، انسانیت، کشموریت، کشمیریت، جمہوریت، اس سے بڑی چیز کیا ہو سکتی ہے۔ کن چیز کے لیے؟ کس قیمت پر ہم روایت کو کھورہے ہیں'۔
جب کشمیر فائل پر لوگوں نے کہا' میری ایک طالبہ تھی، ایم فل سائیما رحمان، وہ ریڈیو جوکی ہے، ہم لوگ بیٹھ کر بات کررہے تھے کہ کس مسئلے ایم فل کیا جائے، ہم نے کہا کشمیری پنڈت پر کرو، یہ بہت پہلے کی بات ہے، آپ حکومت میں نہیں آئے تھے۔
انہوں نے پوچھا کیوں؟ میں نے کہا کہ ایک مسلمان لڑکی کشمیری پنڈت کے در و غم کو سمیٹ کرلوگوں کے سامنے رکھے گی یہ ہندوستان ہے۔ اور ہمیں بتارہے ہیں کہ لوگ، قوم پرستی۔'