بھوپال:بھارت میں مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ مدرسہ ایجوکیشن سے جڑا ہے اور دس فیصد کے قریب لوگ ماڈرن ایجوکیشن سے جڑے ہیں۔ ایک طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ مدرسہ ایجوکیشن مسلم سماج کے لیے بیک بون کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلم سماج اور اس کی بیک بون کو مین اسٹریم میں لانے اور اسے ماڈرن ایجوکیشن سے جوڑنے کے لیے 90 کی دہائی میں ملک میں تحریکیں شروع ہوئی۔
اس تحریک کو اُس وقت ایک شکل ملی جب مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلی دگ وجے سنگھ نے مدھیہ پردیش میں مدرسہ بورڈ بنانے کا اعلان کیا۔ 22 ستمبر 1998 کو یہ خواب حقیقت میں بدلا اور مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی کے ایک چھوٹے سے کمرے سے مدرسہ بورڈ کا کام شروع کیا گیا۔ اس کی بعد 2003 میں اسے تعلیم گھر کے نام سے ایک نئی عمارت الاٹ کی گئی۔
مدھیہ پردیش مدرسہ بورڈ کے قیام کا مقصد تھا کہ صوبہ کے مدارس کو بورڈ سے جوڑ کر مدرسہ کی طالبات کو ماڈرن ایجوکیشن سے جوڑا جا سکے اور مرکز اور صوبائی حکومت کی اسکیموں کا فائدہ مدارس کے طلباء وطالبات اٹھا سکے۔ کہنے کو تو مدرسہ بورڈ کے تحت صوبے کے 2 ہزار کے قریب مدارس رجسٹرڈ ہیں۔ لیکن مرکزی اور صوبائی حکومت کی جانب سے ملنے والی سہولیات سے محروم ہے۔
مدھیہ پردیش مدرسہ بورڈ کے ملازم شکیل احمد بتاتے ہیں کہ پچھلے 15 سالوں سے مدرسہ بورڈ کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ جہاں مدرسہ بورڈ کے ذریعے مدرسے کے طلباء و طالبات مارڈن ایجوکیشن سے جوڑنے کی بات کی گئی تھی لیکن آج بھی مدرسے میں طلباء پہلی سے آٹھویں تک ہی پڑھائی کر پا رہے ہیں۔ انہیں دسویں اور بارویں کی ریگولر تعلین نہیں مل پا رہی ہے۔ اور نہ ہی دوسری سرکاری اسکولوں کی طرح انہیں مددھیان بھوج اور یونیفارم مل پا رہی ہے۔