یہ ہیں لکھنؤ کے اشفاق احمد جو گزشتہ تقریباً 45 برس سے نوابی دور کی چاندی کی خوشنما اصلی موتی و جواہرات سے جڑی ہوئی جوتی، چپل اور سینڈل بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ ان کی تیار کردہ چاندی کی جوتیاں پہن کر نہ جانے کتنی خواتین چند لمحوں میں نواب زادی بن چکی ہیں۔ Royal Silver Shoes of the Nawabs of Awadh۔ انیسویں صدی کے اخیر میں نوابین اودھ، وزرا و رؤسا کے یہاں ہیرے جواہرات سے جڑی ہوئی چاندی کی جوتیاں پہننے کا رواج عام ہوگیا تھا یہی وجہ ہے کہ یہاں کے قدر داں نوابوں نے ماہر و مشاق سنار کو لکھنؤ میں اباد کیا جن کی نقاشی و دستکاری نے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا۔ لکھنؤ کے بنے ہوئے زیورات بہتر اور خوبصورت ہونے کی سند ہوتے ہیں۔
چاندی کی جوتی بنانے والے محمد اسحاق بتاتے ہیں کہ بچپن کے دور میں ہی والد اور بھائیوں سے جوتی بنانے کا ہنر سیکھا اور اسی کام سے وابستہ ہوگیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ یوں تو چاندی کی جوتیاں بنانے کا رواج دوسری شہروں میں بھی ہے لیکن اصل ایجاد لکھنؤ کے نوابوں کی مانی جاتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ چاندی کی جوتی بنانے میں سب سے اہم مرحلہ فریم تیار کرنا ہوتا ہے اس کے بعد چاندی کے پتر کو گرم کرکے مطلوب ڈیزائن و نقش کے لیے پیٹا جاتا ہے۔ اس کے بعد فریم میں پہنایا جاتا ہے فریم تیار ہونے کے بعد ہیرے جواہرات جڑے جاتے ہیں جس سے چاندی کی جوتیوں کی آب و تاب اور خوبصورتی مزید دوبالا ہو جاتی ہے۔