عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مسلم لڑکیوں میں کھیل کود کو لیکر بہت زیادہ رجحان نہیں پایا جاتا ہے، خاص طور پر ٹینس جیسے کھیل میں۔ یہ ثانیہ مرزا کی بہتر کارکردگی ہے کہ ان کی بین الاقوامی سطح پر کامیابی کے بعد سے مسلم معاشرے میں ٹینس جیسے کھیل پر باتیں ہونے لگیں لیکن ثانیہ مرزا کے بعد پھر کوئی بڑا مسلم نام سامنے نہیں آیا۔
کولکاتا کی علینا فرید چند روز قبل ہی آل انڈیا ٹینس انڈر 14 چمپیئن شپ جیت کر آئی ہیں۔ کولکاتا کے شمس الہدیٰ اسٹریٹ میں رہنے والی 12 سالہ علینا فرید نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ صرف 12 سال کی عمر میں علینا کی کامیابی قابل تحسین ہے۔ علینا فرید اپنے ہی والد کے قائم کردہ ٹینس کوچنگ کلب 'دی ٹینس ٹری' جو کولکاتا کے پارک اسٹریٹ میں موجود ہے مشق کرتی ہیں۔ علینا کی اس کامیابی پر ای ٹی وی بھارت نے علینا اور ان کے والد سے تفصیلی گفتگو کی۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے علینا فرید نے کہا کہ آل انڈیا انڈر 14 چمپیئن شپ جیتنے پر کافی خوشی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ مسلسل محنت کرنے کا پھل ملا ہے اور جب اس طرح کی کامیابی ملتی ہے لگتا ہے محنت ضائع نہیں ہوئی، علینا نے بتایا کہ وہ دن میں ڈیڑھ گھنٹے فٹنس ٹریننگ کرتی ہیں اور دو گھنٹے ٹینس کی مشق کرتی ہیں۔ ان کے رول ماڈل رافیل نڈال ہے اور خاتون کھلاڑی کے طور پر سیمونا ہالیپ کو پسند کرتی ہیں۔
علینا نے کہا کہ ان کے لئے یہ بہت اچھا ہے کہ ان کے والد ہی ان کے کوچ ہیں، اسی لئے ان کو کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ وہ مجھے کھیل کی ساری باریکیاں بہت اچھے سے بتاتے ہیں۔ تھوڑے سخت ہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ میری بھلائی کے لئے ایسا کرتے ہیں۔
علینا مستقبل میں ایک بڑی ٹینس کھلاڑی بننا چاہتی ہیں اور ملک و قوم کا نام روشن کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تین چار سال سے ٹینس کھیل رہی ہیں اور مستقبل میں بڑے بڑے ٹورنامنٹ کھیلنا چاہتی ہیں۔ ٹینس کھیلنے کا شوق اپنے والد کو دیکھ کر پیدا ہوا ہے۔ وہ خود ایک بہت اچھے ٹینس کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ علینا نے بتایا کے ٹینس کورٹ میں تو والد مجھے ساری باریکیاں سمجھاتے ہی ہیں لیکن گھر میں بھی میں وہ مجھے ٹینس کے متعلق کئی اہم باتیں بتاتے ہیں۔
علینا فرید کے والد فرید عالم نے اس موقع پر ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ بیٹی کی کامیابی پر بہت خوش ہوں لیکن یہ کافی نہیں ہے، سفر ابھی بہت لمبا ہے۔ قومی کھیل سے بین الاقوامی سطح تک پہچنے کا سفر بہت مشکل اور طویل بھی ہے۔ اس کامیابی سے مطمئن نہیں ہونا چاہئے، ایک یا دو ٹورنامنٹ جیت کر زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا نصب العین کیا ہے۔ اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسے ملک کے لئے عالمی سطح کے کھیل میں میڈل لانا ہے۔ چاہے وہ اولمپک ہو یا پھر فیڈ کپ ہو۔ گرانڈ سلیم ہو یا آسٹریلین اوپن ہو۔