مولانا خالد رشید فرنگی محلی بتاتے ہیں کہ فرنگی محل کی تاریخ بہت ہی شاندار اور تابناک رہی ہے۔ یہاں سے متعدد غیر معمولی صلاحیت کے حامل علماء، علم طب کے ماہر و دیگر علوم و فنون کے ماہرین تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوئے اور ملک و بیرون ملک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق فرنگی محل لکھنؤ کا ایک محلہ تھا جہاں پر فرانسیسی تاجر رہتے تھے۔ وہیں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک محل تھا، فرانسیسی تاجر جب اس محل کو چھوڑ کر چلے گئے جس کے بعد حکومت نے اپنی تحویل میں لیا اور ملا قطب الدین شہید بن سعد اور ملا قطب الدین بن اسعد کو دیا جو بادشاہ کے مشیر تھے، اس کے بعد انہوں نے اس کو بہترین اسلامی تعلیمی ادارے میں تبدیل کیا۔
یہاں کے تعلیمی معیار نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی لیکن آزادی کے بعد یہ زوال پذیر ہے اور اب یہ عمارت خستہ ہوچکی ہے۔ اب یہاں علمائے فرنگی محل کے خاندان کے چند افراد رہائش پذیر ہیں۔
مولانا خالد رشید فرنگی محلی بتاتے ہیں کہ آج سے تقریباً تین سو برس قبل، ملا قطب الدین کے چار صاحبزادے تھے جن کو اورنگزیب نے خط لکھ کر فرنگی محل کو ان کے حوالے کیا تھا۔ ان چاروں بیٹوں کے نام ملا سعد اسعد، ملا نظام الدین اور ملا رضا تھا ملا نظام الدین نے مدرسہ نظامیہ قائم کیا جس کا نصاب تعلیم بغداد کے مدرسہ نظامیہ سے ملتا جلتا رہا اور وہی نصاب تعلیم آج بھی سبھی مدارس کے درس نظامی میں پڑھایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ فرنگی محل کے نامور عالم دین علامہ عبد الحیٔ فرنگی محلی کا نام سر فہرست ہے، جنہوں نے 39 برس کی عمر میں 116 کتابیں تصنیف کریں۔ اس کے علاوہ متعدد درسی کتابوں پر حاشیہ لکھا جس پر آج بھی ابھی تحقیق جاری ہے۔