تاہم اطہر گڑھ کے قبائلی انگریزوں کے خلاف جدوجہد کررہے تھے۔ اس لڑائی کے مرکزی ہیروز میں پرتھوی راج چوہان کے نسلی وارث اور سنبل پور کے راجا سُریندر سائی اور سوناکھن کے زمیندار ویر نارائن سنگھ شامل ہیں۔ اطہر گڑھ کے باشندوں کے لیے جنگلاتی پیداوار کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ یہاں کی زمین بھی بہت زرخیز تھی۔ اٹھارہویں صدی کا اطہر گڑھ، موجودہ مشرقی چھتیس گڑھ اور مغربی اُڑیسہ میں شامل ہے۔
چونکہ بھارت اپنی خودارادیت کے لیے لڑتا رہا، 1757 میں پلاسی کی جنگ نے انگریزوں کو بنگال کا غیر متنازعہ حاکم بنادیا اور 1818 تک انگریزوں نے بھارت کے تقریباً ہر علاقے پر قبضہ کرلیا سوائے اطہر گڑھ کے جو انگریزوں کی پہنچ سے دور رہا۔ تاہم انگریزوں نے اس پر قبضہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
سمبل پور کے تخت پر سُریندر سائی کی جگہ آنجہانی راجا مہاراج سائی کی بیوی رانی موہن کماری کو بٹھایا گیا۔ اس اقدام کی اطہر گڑھ کے بادشاہوں اور زمینداروں نے مخالفت کی جس کے بعد سریندر سائی، ان کے بھائی اُدنت سنگھ اور چچا بلرام سنگھ کو گرفتار کرکے ہزاری باغ جیل بھیج دیا گیا۔
سریندر سائی اور ان کے خاندان کے افراد کی گرفتاری کے بعد بھی بغاوت جاری رہی۔ اور جس وقت علاقے میں قحط پڑا تو سوناکھن کے بِنجھاور زمیندار نارائن سنگھ نے 1856 میں گودام کے تالے توڑ کر لوگوں میں اناج تقسیم کردیا جس کے بعد انہیں گرفتار کرکے رائے پور جیل میں بند کردیا گیا۔
لیکن کچھ ہی دنوں میں نارائن سنگھ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور 30 جولائی 1857 کو بھارتی فوجیوں نے ہزاری باغ جیل کا دروازہ توڑ کر سُریندر سائی اور ان کے ساتھیوں کو فرار ہونے میں مدد کی۔ فرار ہونے کے بعد انہیں سَرن گڑھ کے راجا سنگرام سنگھ کے محل میں پناہ ملی۔