اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

ریٹائرڈ کشمیری پنڈتوں کی سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کی مدت میں تبدیلی

جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس اے ایس بوپنا پر مشتمل بنچ نے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ' جو کشمیری مہاجر مرکزی سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے ہیں، وہ سرکاری رہائش گاہ میں غیر معینہ مدت کے لیے نہیں رہ سکتے ہیں'۔

ریٹائرڈ کشمیری پنڈتوں کی سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کی مدت میں تبدیلی
ریٹائرڈ کشمیری پنڈتوں کی سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کی مدت میں تبدیلی

By

Published : Oct 13, 2021, 7:25 PM IST

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ' مرکزی حکومت کے مختلف دفاتر میں ملازمت کرنے والے کشمیری ملازم ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری رہائش گاہ میں غیر معینہ مدت تک نہیں رہ سکتے ہیں۔

دہلی اور نیشنل کیپیٹل ریجن ( این سی آر) میں واقع سرکاری رہائش گاہ میں رہائش پذیر ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی عرضیوں کی سماعت کے دوران جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس اے بوپنا نے یہ فیصلہ سنایا۔ واضح رہے کہ سنہ 2017 کی پالیسی کوالیفائیڈ مہاجرین کو اپنی ریٹائرمینٹ کی تاریخ سے لے کر آئندہ پانچ برس تک قومی دارالحکومت میں رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ مہاجرین وہ سرکاری ملازم ہیں جنہیں مرکزی حکومت نے سکیورٹی کی بنیادی پر یکم نومبر 1989 کے بعد سرینگر سے دہلی منتقل کیا تھا۔

درخواست گزاروں نے عدالت کے سامنے دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری مہاجرین کو ایک الگ طبقے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے کیونکہ یہ طبقہ دہشت گردی کا شکار ہے اور ان کے پاس کوئی رہائش گاہ یا مکان دستیاب نہیں ہے۔

مرکزی اسکیم کے مطابق کشمیری پنڈتوں کو ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے لے کر آئندہ پانچ سال کے لیے رہائش گاہ مہیا کی جاتی ہے اور اس کے بعد انہیں این سی آر میں منتقل کیا جاتا ہے۔ لیکن عدالت نے کہا کہ یہ معقول ہوگا کہ اگر انہیں تین سال کے لیے سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کی اجازت دی جائے اور اسی مدت کے دوران وہ اپنی رہائش کے لیے کوئی متبادل جگہ کا بندوبست کرلیں۔ ریٹائرڈ مہاجر ملازم کو ملک کے کسی بھی حصے میں تین سال سے زائد وقت کے لیے سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کا حق نہیں ملے گا۔

عدالت نے کہا کہ تین سال کی مدت ان افسران پر بھی نافذ ہوگی جو بطور انٹیلی جنس افسران کام کرچکے ہیں اور دوبارہ معمول کی زندگی میں واپس آنا چاہتے ہیں۔ لیکن خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرنے کا بہانہ غیر معینہ مدت کے لیے سرکاری رہائش گاہ پر رہنے کی بنیاد نہیں بن سکتا ہے۔

تاہم، مرکزی حکومت نے دلائل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس نے مہاجروں کو مختلف فوائد فراہم کیے ہیں جن میں گرانٹ، مرمت کے لیے مالی پیکیج اور مکانات، نوکریاں اور راشن وغیرہ شامل ہیں۔ وہیں عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیری مہاجرین جموں و کشمیر واپس لوٹ رہے ہیں۔ اس میں کہا گیا کہ 3 ہزار 800 لوگ وادی لوٹ بھی چکے ہیں اور وہاں پی ایم پیکج کی نوکریاں کررہے ہیں اور امسال مزید دو ہزار افراد کے واپس اپنے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

وہیں مرکز نے اپنے سبمیشن میں کہا کہ ' جموں و کشمیر حکومت میں ملازمت کرنے والے 6 ہزار کشمیری مہاجرین کو رہائش گاہ فراہم کرنے کے لیے کشمیر وادی کے مختلف اضلاع میں 920 کروڑ روپیے کی تخمینہ لاگت سے 6 ہزار ٹرانزت رہائشی یونٹ تعمیر کیے جارہے ہیں۔ اب تک 1 ہزار 25 رہائشی یونٹ پہلے ہی تعمیر کیے جاچکے ہیں، جن میں بڈگام، کولگام، کپواڑہ، اننت ناگ اور پلوامہ کے 721 رہائشی یونٹ شامل ہیں۔ مزید 1 ہزار 488 یونٹس زیر تعمیر ہیں اور تقریباً 2 ہزار 444 یونٹس کی اراضی کی پہچان کی گئی ہے۔

حکومت کے سبمیشن کا نوٹس لیتے ہوئے عدالت نے مشاہدہ کیا کہ کشمیر مہاجرین کو سرکاری رہائش گاہ کی اجازت آرٹیکل 14 کے معیار پر کھرا نہیں اتررہی ہے۔

عدالت نے کہا کہ 'سرکاری گھر یا فلیٹ سرکاری ملازمین کو مراعات ملتی ہیں۔ وہی تمام سہولیات کشمیری مہاجرین سمیت دیگر سرکاری ملازمین اور عوامی نمائندوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ کشمیری مہاجرین سمیت دیگر ملازمین کو ریٹائرمینٹ کے بعد ماہانہ پینشن کے ساتھ پنشن سے متعلق فوائد دیئے جاتے ہیں۔ سماجی یا معاشی بنیاد پر کشمیری مہاجرین کو غیر معینہ مدت تک سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کی اجازت دینا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details