ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے حضرت گنج علاقے میں واقع ہوٹل عارف کیسلس میں مذہبی رہنماؤں کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر جماعت انجینئر محمد سلیم نے کہا کہ دنیا میں بھارت ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں لوگ مختلف نظریہ رکھنے کے باوجود بھی ایک ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہزاروں سال سے اس ملک نے اپنی اس وراثت کو سنبھال کر رکھا ہے، جو ابھی بھی اس ملک کی ایک اہم سرمایہ مانی جاتی ہے۔ اس وراثت کو برقرار رکھنے میں ہمارے مذہبی رہنماؤں و اداروں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے سیاسی فائدہ کے لئے اس وراثت کو نقصان پہونچانے کا کام کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سماج کے تانا بانا کو برقرار رکھنے میں مذہبی رہنماؤں کا ہمیشہ سے اہم کردار رہا ہے، انہوں نے اپنے ماننے والوں کو یہی سبق دیا کہ وہ کیسے لوگوں کے درمیان آپسی میل جول کے ساتھ رہیں، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کافی عرصہ سے اس ملک کے باشندے آپس میں محبت و بھائی چارگی سے رہتے آئے ہیں لیکن اب جبکہ امن پسند سماج کو کچھ ایسے عناصر سے خطرہ لاحق ہوا جس سے سماج اخلاقی پستیوں کی جانب بڑھ رہا ہو تو ایک بار پھر سے ان سماجی رہنماؤں پر یہ ذمہ داری آتی ہے کہ وہ آگے آکر سماج اور ملک کو امن و شانتی کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
بدھ مذہب کے نمائندہ بھکشو گیان لوک نے کہا کہ سماج کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو سماج کو توڑنے نہیں بلکہ جوڑنے کا کام کریں، ایسے حالات میں جبکہ لوگ ایک دوسرے سے نفرت کر رہے ہوں ہم لوگوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم انہیں محبت کا درس دیں۔
عیسائی سماج کے نمائندہ میتھیڈسٹ چرچ کے فادر آر بی رائے نے کہا کہ سماج میں اور بھی ایسے مسائل ہیں جن پر ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے۔ ملک میں بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل پر گفتگو کرنی چاہئے اور ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے جس سے ملک تنزلی کا شکار ہو۔