اردو

urdu

By

Published : Nov 11, 2020, 9:03 AM IST

Updated : Nov 11, 2020, 10:23 AM IST

ETV Bharat / bharat

بدرالدین نے اپنا فلمی نام 'جانی واکر' کیوں رکھا؟

اپنی مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کو مسحور کرنے والے قہقہوں کے شہنشاہ بدر الدین جمال الدین قاضی عرف جانی واکر کی آج ولادت کو ہے۔

jw
jw

جانی واکر کو کئی دوستوں نے فلمی نام 'مستانہ' رکھنے کی صلاح دی لیکن انہوں نے اس زمانے کی مشہور 'شراب جانی واکر' کے نام پر اپنا نام 'جانی واکر' رکھ لیا۔

جانی واکر کی شادی اس وقت کی معروف اداکارہ شکیلہ کی بہن نور جہاں سے ہوئی، نور جہاں بھی اس وقت فلموں میں اداکاری کیا کرتی تھیں

بالی ووڈ میں اپنی زبردست مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں میں گدگدی پیدا کرنے والے، قہقہوں کے شہنشاہ جانی واکر کو بطور اداکار نے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے بس کنڈکٹر کی ملازمت سے بھی گریز نہیں کیا۔

بدرالدین جمال الدین قاضی عرف جانی واکر کی پیدائش ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں 11 نومبر سنہ 1926 کو ایک متوسط مسلم خاندان میں ہوئی تھی۔

ستر کی دہائی میں جانی واکر نے فلموں میں کام کرنا کم کر دیا تھا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ فلم میں کامیڈی کی سطح میں گراوٹ آ گئی ہے

انہیں بچپن سے ہی اداکار بننے کا شوق تھا، تاہم سنہ 1942 میں ان کا خاندان ممبئی آ گیا، یہاں ان کے والد کے ایک دوست پولیس انسپکٹر تھے جن کی سفارش پر انہیں بس کنڈکٹر کی ملازمت مل گئی۔

اس ملازمت سے وہ کافی خوش ہوئے کیوںکہ انہیں مفت میں ہی پوری ممبئی گھومنے کا موقع مل گیا تھا، اتنا ہی نہیں اس کے ساتھ ہی انہیں ممبئی کے فلم سٹوڈیو میں بھی جانے کا موقع مل جایا کرتا تھا۔

علاوہ سنہ 1968 میں ریلیز ہونے والی فلم 'شکار' کے لیے انہیں بہترین مزاحیہ اداکار کے فلم فیئر ایوار ڈ سے نوازا گیا

ان کا بس کنڈکٹری کرنے کا انداز بھی کافی دلچسپ تھا۔ وہ اپنے خاص انداز میں آواز لگاتے 'ماہم والے پسنجر اترنے کو ریڈی ہوجاؤ لیڈیز لوگ پہلے'۔

اسی دوران ان کی ملاقات فلمی دنیا کے مشہور ویلن این اے انصاری اور کے آ صف کے سکریٹری رفیق سے ہوئی۔

تقریباً سات آٹھ مہینے کی جدوجہد کے بعد جانی واکر کو فلم 'آخری پیمانے' میں ایک چھوٹا سا رول ملا۔

جانی واکر نے تقریباً 12 فلموں میں بطور ہیرو بھی کام کیا ہے، بطور ہیرو ان کی پہلی فلم 'پیسہ یہ پیسہ' تھی جس میں انہوں نے تین مختلف کردار ادا کیے تھے

اس فلم میں انہیں 80 روپے اجرت ملی جبکہ بطور بس کنڈکٹر انہیں پورے مہینے کے لیے صرف 26 روپے ہی ملا کرتے تھے۔

ایک دن جانی واکر کی ملاقات اپنے دور کے ممتاز اداکار بلراج ساہنی سے ہوئی جو ان کی بس میں سفر کر رہے تھے۔

وہ جانی واکر کی خوش مزاجی اور دلچسپ انداز سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں گرودت سے ملنے کی صلاح دی جو ان دنوں فلم 'بازی' بنارہے تھے۔

مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فائنانسرز اور پروڈیوسر کی بھی یہ شرط ہوتی تھی کہ فلم میں جانی واکر پر ایک گیت ضرور ہونا چاہیے

گرودت نے جانی واکر کی صلاحیت سے خوش ہو کر اپنی فلم 'بازی' میں انہیں کام کرنے کا موقع دیا، اور سنہ 1951 میں ریلیز ہونے والی فلم 'بازی' کے بعد جانی واکر بطور مزاحیہ اداکار اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہے اور گرو دت کے پسندیدہ اداکاروں میں شامل ہوگئے۔

اس کے بعد انہوں نے گرودت کی کئی فلموں میں کام کیا جن میں آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، پیاسا، چودھویں کا چاند، کاغذ کے پھول جیسی سُپر ہٹ فلمیں شامل ہیں۔

جانی واکر کی شہرت کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی ہر فلم میں ایک یا دو نغمے ان پر ضرور فلمائے جاتے تھے

نوکیتن کے بینر تلے بنی فلم ٹیکسی ڈرائیور میں جانی واکر کے کردار کا نام 'مستانہ' تھا۔ کئی دوستوں نے انہیں اپنا فلمی نام 'مستانہ' رکھنے کی صلاح دی لیکن جانی واکر کو یہ نام پسند نہیں آیا اور انہوں نے اس زمانے کی مشہور 'شراب جانی واکر' کے نام پر اپنا نام 'جانی واکر' رکھ لیا۔

کئی سُپر ہٹ فلموں میں اپنی مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں کو مسحور کردیا

فلم کی کامیابی کے بعد گرو دت نے خوش ہو کر انہیں تحفے میں ایک کار دی تھی۔ گرو دت کی فلموں کے علاوہ جانی واکر نے ٹیکسی ڈرائیور، دیو داس، نیا انداز، چوری چوری، مدھومتی، مغل اعظم، میرے محبوب، بہو بیگم، میرے حضور جیسی کئی سُپر ہٹ فلموں میں اپنی مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں کو مسحور کر دیا۔

قہقہوں کے شہنشاہ جانی واکر کو بطور اداکار اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے بس کنڈکٹر کی ملازمت سے بھی گریز نہیں کیا

جانی واکر کی شہرت کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی ہر فلم میں ایک یا دو نغمے ان پر ضرور فلمائے جاتے تھے۔

سنہ 1956 میں گرودت کی فلم 'سی آئی ڈی' میں ان پر فلمایا نغمہ 'اے دل ہے مشکل جینا یہاں، ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے یہ ہے ممبئی میری جاں' نے پورے ملک میں دھوم مچا دی۔

فلم کی کامیابی کے بعد گرو دت نے خوش ہوکر انہیں تحفے میں ایک کار دی تھی

اس فلم کے بعد ہر فلم میں ان پر ایک نغمہ ضرور فلمایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فائنانسرز اور پروڈیوسر کی بھی یہ شرط ہوتی تھی کہ فلم میں جانی واکر پر ایک گیت ضرور ہونا چاہیے۔

مشہور 'شراب جانی واکر' کے نام پر اپنا نام 'جانی واکر' رکھ لیا

ان پر فلمائے گئے نغمے فلم نیا دور کا 'میں بمبئی کا بابو'، مدھومتی کا 'جنگل میں مور ناچا کسی نے نہ دیکھا'، فلم مسٹر اینڈ مسز 55 کا 'جانے کہاں میرا جگر گیا جی'، فلم پیاسا کا 'سر جو تیرا چکرائے یا دل ڈوبا جائے'، فلم چودھویں کا چاند کا نغمہ 'میرا یار بنا ہے دولہا'، بھی ناظرین میں کافی مقبول ہوا۔

واضح رہے کہ جانی واکر پر فلمائے گئے زیادہ تر نغمے محمد رفیع کی آ واز میں ہیں لیکن فلم 'بات ایک رات کی' میں ان پر فلمایا نغمہ 'کس نے چلمن سے مارا نظارہ مجھے' میں منا ڈے نے اپنی آواز دی تھی۔

بچپن سے ہی اداکار بننے کا شوق تھا، تاہم سنہ 1942 میں ان کا خاندان ممبئی آ گیا، یہاں ان کے والد کے ایک دوست پولیس انسپکٹر تھے جن کی سفارش پر انہیں بس کنڈکٹر کی ملازمت مل گئی

جانی واکر نے تقریباً 12 فلموں میں بطور ہیرو بھی کام کیا ہے، بطور ہیرو ان کی پہلی فلم 'پیسہ یہ پیسہ' تھی جس میں انہوں نے تین مختلف کردار ادا کیے تھے۔

اس کے بعد ان کے نام پر فلم ڈائریکٹر وید موہن نے سنہ 1967 میں 'جانی واکر' بنائی تھی، جو سنہ 1958 میں منظر عام پر آنے والی فلم مدھو متی کے ایک منظر میں وہ درخت پر اُلٹا لٹک کر بتاتے ہیں کہ دنیا ہی الٹ گئی ہے جسے ناظرین آج تک نہیں بھولے ہیں۔

قہقہوں کے سرتاج بدر الدین جمال الدین قاضی، عرف جانی واکر کی ولادت کو آج

اس فلم کے لیے انہیں سب سے بہترین معاون اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ اس کے علاوہ سنہ 1968 میں ریلیز ہونے والی فلم 'شکار' کے لیے انہیں بہترین مزاحیہ اداکار کے فلم فیئر ایوار ڈ سے نوازا گیا۔

ستر کی دہائی میں جانی واکر نے فلموں میں کام کرنا کم کر دیا تھا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ فلم میں کامیڈی کی سطح میں گراوٹ آ گئی ہے۔

اسی دوران رشی کیش مکھرجی کی فلم 'آنند' میں انہوں نے ایک چھوٹا سا رول ادا کیا جس کے ایک سین میں وہ راجیش کھنہ کو زندگی کا ایک ایسا سبق دیتے ہیں جس سے ناظرین ہنستے ہنستے سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔

بدرالدین نے اپنا فلمی نام 'جانی واکر' کیوں رکھا؟

جانی واکر کی شادی اس وقت کی معروف اداکارہ شکیلہ کی بہن نور جہاں سے ہوئی، نور جہاں بھی اس وقت فلموں میں اداکاری کیا کرتی تھیں۔ ان سے انہیں تین بیٹیاں اور تین بیٹے ناصر خان، ناظم قاضی اور کاظم قاضی ہوئے۔

سنہ 1986 میں اپنے بیٹے کو فلم انڈسٹری میں لانچ کرنے کے لیے انہوں نے فلم 'پہنچے ہوئے لوگ' بنائی جس کے ہدایت کار اور پروڈیوسر وہ خودہی تھے، لیکن باکس آفس پر یہ فلم بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔

بدرالدین نے اپنا فلمی نام 'جانی واکر' کیوں رکھا؟

اس درمیان انہیں کئی فلموں میں اداکاری کرنے کی پیشکش ملی، لیکن جانی واکر نے کام کرنے سے انکار کر دیا، بعد میں گلزار اور کمل حسن کے زور دینے پر سنہ 1998 میں فلم 'چاچی 420' میں انہوں نے ایک چھوٹا سا رول نبھایا جسے ناظرین نے خوب پسند کیا۔

خیال رہے کہ جانی واکر نے تقریباً پانچ دہائیوں پر مشتمل اپنے طویل فلمی کریئر میں 300 سے زائد فلموں میں کام کیا۔

اپنے خاص اور دلفریب انداز سے ناظرین کو مسحور کرنے والا یہ عظیم مزاحیہ اداکار 29 جولائی 2003 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔

Last Updated : Nov 11, 2020, 10:23 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details