دہلی:جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے اترپردیش کے میرٹھ ضلع میں واقع ملیانہ میں 22 مئی 1987ء کو ہوئے قتل عام معاملے میں مقامی عدالت کے فیصلے کو مایوس کن بتایا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ مقامی عدالت کے ذریعہ 35 سالوں کے بعد بھی انصاف نہ دینا اور ملزمین کو بری کرنا نہ صرف '○جسٹس ڈیلے' ہے بلکہ 'جسٹس ڈینائیڈ' کی بھی بدترین مثال ہے۔
واضح ہو کہ میرٹھ میں ہاشم پورہ، ملیانہ سانحہ بھارت کی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ ہے جب 22 مئی 1987ء کو ہاشم پورہ میں پولیس اور پی اے سی نے مسلمانوں کو گھر سے باہر کیا، گھر گھر تلاشی لی اور پھر مسلمانوں کو گولی مار کر ان کی لاشیں گنگ نہر اور ہنڈن ندی میں پھینک دیا۔ اس کے اگلے دن ملیانہ قتل عام ہوا، جہاں مبینہ طور سے پی اے سی کی 44 ویں بٹالین کے کمانڈنٹ آر ڈی ترپاٹھی کی کمان میں 72 مسلمانوں کو مار دیا گیا تھا۔
اس قتل کے معاملے میں ایف آئی آر درج کی گئی، لیکن اس میں پی اے سی کارکنان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ریاستی ایجنسیوں کی طرف سے کی گئی تحقیقات اور استغاثہ کی طرف سے ناقص چارج شیٹ تیار کرنے کی وجہ سے انصاف کی امید پوری نہ ہوئی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ریاستی پروسیکیوٹر کی ناکامی اور سبھی سرکاروں کے ذریعہ مجرموں کی پشت پناہی کا مظہر ہے، اتنی بڑی تعداد کا قتل ہو اور قاتل کا سراغ نہ ملے یہ ہرگز سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے اور اس پر خاموشی یا اسے نظر انداز کرنا خود ایک جرم ہے۔