علی گڑھ:اسلام میں خواتین کا مقام و مرتبہ واضح ہے۔ انہیں علمی اور علملی ہر طرح کی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت ہے۔ ان کے حقوق اور فرائض سب متعین کر دیے گئے ہیں۔ لیکن مقام حیرت و افسوس ہے کہ ان کے بارے میں اپنے اور پرائے سب غلط بیانی اور غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ایک طرف اسلام کے مخالفین اور بدخواہ طرح طرح کے اعتراضات اور الزامات عائد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام نے مردوں کے مقابلے میں خواتین کو پست درجہ دیا ہے۔ انہیں گھر کی چہار دیواری میں قیدی بنا کر رکھا ہے۔ ان پر حجاب کی بندشیں عائد کر کے انہیں سماج سے بالکل کاٹ دیا ہے اور کسی کو ان کی علمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر اعتراضات اسلام کی صحیح تعلیمات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسلام کے نام لیواؤں نے اسلام میں خواتین کے مقام ومرتبہ کا صیح تعارف نہیں کرایا ہے۔
اسلام میں خواتین کے مقام و مرتبہ اور حقوق کے سلسلے میں جو اعتراضات کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس پر علم کے دروازے بند رکھے گئے ہیں، اسے لکھنے پڑھنے سے روکا گیا ہے، پردہ اختیار کرنے اور گھر میں ٹک کر رہنے کے سخت حکم کی وجہ ے تعلیمی اداروں اور علمی مراکز سے استفادہ اس کے لیے ممکن نہیں رہا ہے۔ یہ اعتراض بالکل بے بنیاد اور حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ اسلام نے لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی بھی تعلیم و تربیت پر زور دیا ہے اور اس کا بڑا اجر بیان کیا ہے۔ خواتین نے اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور سے لے کر اب تک ہر دور میں علوم وفنون کی اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں 'سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلم خواتین کی شراکت' موضوع پر ایک روزہ بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا گیا، جس سے متعلق صدر شعبہ پروفیسر عبدالحمید فاضلی نے بتایا کہ اس سیمینار کا مقصد سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حصور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے دور جدید تک مسلم خواتین کی خدمات کو سامنے لانے کی کوشش ہے۔ صدر شعبہ نے مزید بتایا آج کو دور جدید میں مسلم خواتین کے پردے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مسلم خواتین پردے یا حجاب کے سبب ترقی نہیں کرسکتی یا تعلیم یافتہ نہیں ہو سکتی ہیں جبکہ قرآن اور حدیث کے مطابق خواتین بھی اعلی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، ترقی کر سکتی ہیں اور کسی بھی میدان میں کام کرسکتی ہیں ان کو کوئی رکاوٹ نہیں ہیں اسی طرح کی غلط فہمیوں اور الزامات کو دور کرنے کی ایک کوشش ہے یہ سیمینار۔