'بچیوں کے عالمی دن' کو ان لڑکیوں کے لیے امید کی کرن سمجھا جاتا ہے، جو تعلیم اور بنیادی سہولیات کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھارت میں بچیوں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہندوستان کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی اسمگلنگ اور کم عمر بچیوں کی شادیاں اب بھی رائج ہیں، حالانکہ حکومتیں تو نہ جانے کتنے برسوں سے یہ دعوے کرتی آرہی ہیں کہ وہ ان کو روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بدقسمتی سے سیاستداں ہر سال بچیوں کے عالمی دن کے موقع پر لمبی تقریر اور بیانات جاری کرتے ہیں اور اسے بھول بھی جاتے ہیں۔ لیکن اب بہت ہوگیا، حکومت کو نیند سے بیدار ہونا ہوگا اور اس غیر انسانی عمل پر قدغن لگانا ہوگا۔
ہر سال 11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لڑکیوں کو درپیش مسائل اور ان کے حقوق کی جانب توجہ دلانا ہے۔ اس دن نوعمر لڑکیوں کی اہمیت، طاقت اور صلاحیت کو تسلیم کرنا ہے تاکہ ان کے لیے موقع کے نئے دروازہ کھولے جائیں۔
سنہ 1995 میں بیجنگ میں خواتین کے مسائل پر منعقد عالمی کانفرس میں بیجنگ ڈیکلیریشن کی جانب سے پہلی بار 'بچیوں کا عالمی دن' منانے کی بات کو قبول کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا، جس میں دنیا بھر میں نو عمر لڑکیوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پر غور و فکر کیا گیا۔ بچیوں کا عالمی دن غیر سرکاری اور بین الاقوامی تنظیم کے منصوبے کے ایک حصے کے طور پر شروع ہوا۔ یہ مہم لڑکیوں کی پرورش اور نشوونما کے لیے شروع کی گئی، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کے حقوق کو فروغ دینے اور انہیں غربت سے نکالنے کے لیے۔
پوری دنیا میں ہر روز تقریباً 33 ہزار بچیوں کی کم عمر میں ہی شادی کردی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں اس وقت 30 لاکھ سے زائد لڑکیاں اور خواتین ایچ آئی وی جیسی مرض کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ بچہ مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں، وہ بھی بغیر تنخواہ کے۔ پانچ سے 14 سال کی عمر کی لڑکیاں 28 گھنٹے سے زیادہ کام کرتی ہیں، جو کہ لڑکوں کے مزدوری کرنے کے وقت سے دو گنا ہے۔ جنسی استحصال کے لیے ہونے والی انسانی اسمگلنگ میں خواتین اور لڑکیاں 96 فیصد سے زیادہ ہیں۔
صنفی مساوات اور تمام خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانا ضروری ہے۔ پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانا اور صنفی مساوات کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف اپنائے گئے ہر قسم کے امتیازی سلوک کو ختم کرنا نہ صرف ایک بنیادی حق ہے، بلکہ تمام دیگر ترقیاتی شعبوں میں بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے صنفی مساوات پر کئی کام ہوئے ہیں اور اس پر کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے، لیکن کووڈ وبائی مرض اس اہم پیش رفت کو چیلنج کررہا ہے۔ وبائی مرض کی وجہ سے 10 کروڑ سے زیادہ لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول چھوڑنے کا خطرہ ہے۔ صنفی امتیاز اور غربت میں اضافہ کی وجہ سے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے میں دشواریاں پیدا ہورہی ہیں۔