ڈنڈوری۔ ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع جبل پور میں ایک مسلم نوجوان نے ایک ہندو لڑکی سے شادی کی جس کے خلاف لڑکی کے گھروالوں نے پولیس اسٹیشن میں اغوا کا مقدمہ درج کرایا تھا، جس کے بعد ضلع انتظامیہ نے مسلم نوجوان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اس کے مکان اور تین دوکانوں کو منہدم کردیا، وہیں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اغوا معاملہ میں مزید کارروائی پر روک لگاتے ہوئے جوڑے کو سکیورٹی فراہم کرنے کی بات کہی ہے۔ جبل پور بنچ کی جسٹس نندیتا دوبے کی سربراہی والی سنگل بنچ نے 22 سالہ ساکشی ساہو کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے یہ حکم دیا۔ جس نے عدالت کو بتایا کہ اس نے آصف خان سے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ بنچ نے اپنے حکم میں کہا کہ انہوں نے یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی شادی کو اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت رجسٹر کروائیں گے کیونکہ وہ 7 اپریل سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ Interfaith couple gets court protection after MP administration demolishes Muslim man home
ساکشی ساہو نے بتایا کہ بھارتی شہری ہونے کے سبب انہیں اپنی پسند کا جیون ساتھی منتخب کرنے کا مکمل حق ہے۔ 4 اپریل کو مدھیہ پردیش پولیس نے ساہو کے بھائی کی شکایت پر لڑکی کو اغوا کرنے اور زبردستی شادی کرنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ 7 اپریل کو ضلعی انتظامیہ نے مسلم نوجوان کے خاندان سے تعلق رکھنے والی تین دکانوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے منہدم کردیا۔ انہدام کے چند گھنٹے بعد سابق وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ضلع صدر نریندر سنگھ راجپوت کی طرف سے قومی شاہراہ 45 پر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ مسلم نوجوان کے گھر کو بھی گرایا جائے۔ کلکٹر رتناکر جھا اور سب ڈویژنل مجسٹریٹ بلبیر رمن سمیت ضلعی عہدیداروں کی ایک ٹیم نے مظاہرین سے ملاقات کی اور 8 اپریل کو مسلم نوجوان کے گھر کو بھی منہدم کردیا گیا۔