پلاننگ کمیشن آف انڈیا، جس نے اپنے وجود کے 70 سال پہلے ہی پورے کرلئے ہیں، نے ماضی میں ایک بار کہا تھا کہ آئینِ ہند ریاستوں اور مرکز کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کا تصور دیتا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پندرہویں فائنانس کمیشن کا اجلاس اُن پیمانوں کی کسوٹی پر پورا اترے گا یا نہیں، جو اس نے طے کئے ہیں۔
پلاننگ کمیشن کی منسوخی، جی ایس ٹی کے نفاذ اور عالمی وبا کے نتیجے میں قومی معیشت کی تباہ حالی جیسے عوامل کے تناظر میں مالی کمیشن نے حال ہی میں اپنی رپورٹ جاری کردی ہے۔ پندرہویں مالی کمیشن کی اس رپورٹ میں کمیشن نے خود کو ’وبا کے دور کا فائنانس کمیشن‘ کا نام دیا ہے۔ یہ رپورٹ مکمل طور پر مودی سرکار کی ہدایات اور طے شدہ حدود کے دائرے میں تیار کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ سال 2011ء کی مردم شماری کی اساس پر مرتب کی گئی ہے۔
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ جنوبی بھارت کی ریاستیں، ماسوائے تامل ناڈو، 16,640 کروڑ روپے کے خسارے سے دوچار ہوچکی ہیں۔ تخمینے کے مطابق سال 2021ء اور 2026ء کے عرصے میں ان ریاستوں کی آمدنی کا نقصان 94,000 کروڑ تک پہنچے گا، کیونکہ ان کی آمدنی کے غلط پیمانے مقرر کئے گئے ہیں۔
چودہویں مالی کمیشن نے ریاستوں کو 42 فیصد وسائل منتقل کئے تھے۔ لیکن بعد میں مرکز کی جانب سے از سر نو جائزہ لینے کی سفارش کو قبول کرتے ہوئے کمیشن نے جموں کشمیر اور لداخ کی یونین ٹریٹریز کو ایک فیصد فراہم کرنے کے بعد وسائل کا 41 فیصد ریاستوں کو تفویض کیا۔ ریاستوں کا دعویٰ ہے کہ اگرچہ اُنہیں 42 فیصد وسائل تفویض کئے گئے تھے، لیکن عملی طور پر اُنہیں 35 فیصد ہی ملے ہیں۔ ریاستوں کی جانب سے کئے جانے والا یہ مطالبہ کہ اُنہیں پچاس فیصد وسائل تفویض کئے جائیں، صدا بہ صحرا ثابت ہوگیا ہے۔
فائنانس کمیشن کا کہنا ہے کہ آنے والے پانچ سال میں ریاستوں کو بھارت کے مجموعی فنڈ میں سے 52.41 لاکھ کروڑ روپے ملیں گے۔ اس کے برعکس مرکز کا کہنا ہے کہ وہ 1.8 لاکھ کروڑ کے گرانٹس کا از سر نو جائزہ لے گا اور اس کے فیصلے کا اعلان سوچ بچار کے بعد کیا جائے گا۔ مرکز کا یہ رویہ وفاقی نظام کی روح کے لئے نقصاندہ ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سال 2015ء میں وزیر اعظم نریندرا مودی نے کہا تھا، ’’ہمارا ماننا ہے کہ ریاستوں کو سوچ بوجھ اور نظم و نسق کا خیال رکھتے ہوئے موثر مالی استحکام کے ساتھ اپنے منصوبوں اور سکیموں کو خود مرتب کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔‘‘