بھارت کے انڈس کمشنر پی کے سکسینا نے کہا 'میٹنگ 23 اور 24 مارچ کو نئی دہلی میں ہوگی'۔
جموں و کشمیر سے 370 کو ختم کرنے اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کیے جانے کے بعد یہ پہلی میٹنگ ہورہی ہے، اس کے بعد سے بھارت نے لداخ میں کئی پن بجلی منصوبوں کی منظوری دے دی ہے۔
ان میں لیہ کے لیے ڈربوک شیوک (19 میگاواٹ)، شانکو (18.5 میگاواٹ)، نیمو چیلنگ (24 میگاواٹ)، رونگاڈو (12 میگاواٹ)، رتن ناگ (10.5 میگاواٹ) جبکہ کرگل کے لیے منگدوم سانگرا (19 میگاواٹ)، کارگل ہوندیرمن (25 میگاوٹ) اور تماشا(12 میگاوٹ) منصوے شامل ہیں۔
بھارت نے پاکستان کو ان منصوبوں سے متعلق جانکاری دے دی ہے، اور مانا جارہا ہے کہ میٹنگ کے دوران ان پر تبادلہ خیال ہوسکتا ہے۔
سکسینا نے بتایا کہ دریائے چناب پر بھارت کے پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن سے متعلق اسلام آباد کے خدشات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اس سے قبل میٹنگ مارچ 2020 میں ہونی تھی، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اسے منسوخ کردیا گیا تھا۔معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اجلاس منسوخ کردیا گیا تھا۔
انڈس واٹر ٹریٹی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کے لیے بھارت نے جولائی 2020 میں پاکستان کو ڈیجیٹل میٹنگ کی تجویز پیش کی تھی ، لیکن پاکستان اٹاری بارڈر چوکی پر ہی ملاقات کے لیے اڑا تھا۔
سکسینا نے کہا کہ صورتحال بہتر ہونے کے بعد یہ میٹنگ ہورہی ہے، اور کووڈ سے متعلق تمام پروٹوکول پر عمل کیا جائے گا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان سنہ 1960 میں انڈس واٹر ٹریٹی پر دستخط ہوئے تھے، اس معاہدے کی دفعات کے مطابق مشرقی دریاؤں، بیاس، راوی، ستلج کے پانی پر بھارت کا، اور پاکستان کے مغربی دریاؤں، سندھو، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔