نئی دہلی: ممنوعہ دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین کے ممبران ہونے اور ملک میں 2007 کے بعد سے رونما ہونے والے بم دھماکوں کی مبینہ سازش رچنے کے الزامات کے تحت گرفتار دس ملزمین میں سے تین ملزمین کو پٹیالیہ ہاؤس سیشن عدالت کے جج شیلندر ملک مقدمہ سے ڈسچارج کردیا۔ یہ اطلاع جمعیۃ کی آج یہاں جاری کردہ ریلیز میں دی گئی ہے۔ عدالت نے دفاعی وکلاء کی چار ج فریم پر بحث کے بعد ملزمین عبدالواحید صدی بپا، اریز خان اور منظر امام کو مقدمہ سے ڈسچارج کرتے ہوئے بقیہ ملزمین کے خلاف یو اے پی اے قانون کی دفعات 38,39,19 اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیئے جانے کا حکم جاری کیا۔
ملزم عبدالواحد صدی بپا کو جمعیۃ علماء ہند (ارشدمدنی) قانونی امداد کمیٹی نے قانونی امداد فراہم کی تھی، ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے ملزم عبدالواحد صدی بپا جس کا تعلق بھٹکل سے ہے کی جانب سے بحث کی تھی۔ عبدالواحد صدی بپا کو 20/ مئی 2016 کو قومی تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے اندرا گاندھی انٹر نیشنل ائیر پورٹ (نئی دہلی) سے گرفتار کیا تھا۔ تفتیشی ایجنسی نے عبدالواحید پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ انڈین مجاہدین تنظیم کے چیف یاسین بھٹکل کا قریبی رشتہ دار ہے اور وہ دبئی میں رہتے ہوئے انڈین مجاہدین نامی تنظیم سے جڑنے کے لیئے لوگوں کو آمادہ کرتا تھا۔این آئی اے کی جانب سے عبدالواحد کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کیا گیا تھا جس کی بنیاد پر اس کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔عبدالواحد پر یہ بھی الزام تھا کہ وہ دبئی میں فنڈ جمع کیا کرتا تھا جس کا استعمال ہندوستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیئے کیا جاتا تھا۔ ملزمین پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے جیسے سنگین الزامات عائدکیئے گئے تھے۔
ملزم کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ آٹھ سال قبل ملزم کو جن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا آج اسے عدالت نے قبول کرنے سے ہی انکار کر تے ہوئے ملزم کو مقدمہ سے ڈسچارج کردیا یعنی کے عدالت نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ ملزم کے خلاف مقدمہ چلایا ہی نہیں جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تفتیشی ایجنسیوں کو کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے سے پہلے ایمانداری سے تحقیقات کرنا چاہئے، ایسا نہیں ہونا چائے کہ آٹھ دس سالوں بعد یہ پتہ چلے کہ ملزم کو جس الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔