نئی دہلی: اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ پانچویں ہفتے میں داخل ہونے کے بعد بھارت میں فلسطینی سفیر عدنان ابو الحیجہ نے ای ٹی وی بھارت کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ بھارت دونوں فریقوں کو ایک ہی نقطہ نظر سے دیکھے گا۔ اور محصور علاقے میں بچوں اور معصوم شہریوں کے قتل کی مذمت کرے گا۔ فلسطینی سفیر نے یہ بھی کہا کہ ہم اب بھی امید کر رہے ہیں کہ بھارت اس جنگ میں مداخلت کرکے جنگ بندی کا مطالبہ کرے گا۔
پیر کو غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 10,000 سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں 4,100 سے زیادہ بچے اور 2,640 خواتین شامل ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں نے غزہ شہر کو مکمل طور سے اپنے محاصرے میں لے لیا ہے اور محصور علاقے کے شمالی حصے کو کاٹ دیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پیر یا منگل کے آخر میں فوجیوں کے شہر میں داخل ہونے کی توقع ہے اور پھر گلی کوچوں میں لڑائی جاری ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ ایک ماہ سے جاری جنگ میں دونوں طرف سے ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ہے۔
ہم یہاں پر فلسطینی سفیر عدنان ابو الحیجہ کے انٹرویو کا اقتباس پیش کر رہے ہیں۔
سوال: جنگ کے بارے میں آپ کا موجودہ اندازہ کیا ہے؟
جواب: ہم اس جنگ کے پانچویں ہفتے میں ہیں۔ صورتحال بہت زیادہ مشکل ہے۔ میرے خیال میں ہم نے اس طرح کا محاصرہ پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ مجھے نہیں معلوم کہ نازیوں کے ذریعہ لینن گراڈ کے محاصرے کے دوران بھی ایسا ہی تھا۔ ان کی حالت فلسطینیوں کے حالات سے بہت بہتر تھی۔آج تقریباً 22 لاکھ فلسطینی پانی، ایندھن اور آکسیجن کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ امریکہ دیگر استعماری ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیلیوں کے ان تمام جرائم پر پردہ ڈال رہا ہے۔ اسرائیلی اب مہاجرین کی پناہ گاہوں اور ہسپتالوں پر بمباری کر رہے ہیں۔ صورتحال وحشیانہ ہے اور اسرائیل کہہ رہا ہے کہ وہ حماس پر حملہ کر رہا ہے۔
سوال: آپ بھارت کے ردعمل کو کیسے دیکھتے ہیں؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی بھارت نے پرامن جنگ بندی کی تجویز سے خود کو دور رکھا۔
جواب: اب تک میں توقع کر رہا تھا کہ بھارت کم از کم جنگ بندی کا مطالبہ کرے گا۔ لیکن بھارت نے حماس کی مذمت کی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت نہیں کی ہے۔ 10,000 سے زیادہ لوگ پہلے ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلیوں نے عمارتوں اور ہسپتالوں پر حملے کیے تو ہزاروں لوگ مارے گئے۔ ہزاروں لوگ اب بھی ملبے تلے پھنسے ہوئے ہیں اور ہمارے پاس انہیں بچانے کا سامان بھی نہیں ہے۔
سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں نئی دہلی ایک امن ساز بن کر ابھر سکتا ہے؟
جواب: مجھے امید ہے۔ میں اس جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک کئی بار انھیں فون کر چکا ہوں۔ بھارت کے لیے اچھا ہے اگر وہ مذاکرات کار کے طور پر کام کر سکے۔ بھارت اب دنیا کا ایک بہت اہم ملک ہے، جس میں سب سے زیادہ آبادی ہے، اور اس کا ایک قابل احترام وزیر اعظم ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ (بھارت) دونوں اطراف کو ایک ہی نقطہ نظر سے دیکھیں گے اور بچوں اور معصوم شہریوں کے قتل کی مذمت کریں گے جو ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ اسرائیل حماس سے نہیں لڑ رہا ہے بلکہ وہ فلسطینیوں، ایماندار لوگوں اور عام شہریوں کو قتل کر رہا ہے اور اسرائیل کئی دہائیوں سے ایسا کر رہا ہے۔ ہم نے حماس کے ایک بھی فوجی کو اسپتال آتے نہیں دیکھا، ہم نے صرف بچوں، خواتین اور معصوم لوگوں کو اسپتالوں میں آتے دیکھا ہے۔ ہم اب بھی امید کر رہے ہیں کہ بھارت مداخلت کرے گا اور جنگ بندی کا مطالبہ کرے گا۔
سوال: دراصل یہ جنگ کیوں شروع ہوئی؟
جواب: اس کی بہت سی وجوہات ہیں اور یہ صرف 7 اکتوبر کی وجہ سے ہی نہیں شروع ہوئی ہے۔ بنیادی وجوہات وہ مسائل ہیں جن کا فلسطینی 75 سال سے اور مغربی کنارے اور غزہ کو 56 سال سے سامنا ہے۔ ہم نے اسرائیل کے ساتھ امن کے لیے معاہدے کیے ہیں اور ان پر دستخط بھی کیے ہیں۔ ہم نے ان کے ساتھ 1993 میں امن معاہدے (اوسلو معاہدے) پر دستخط کیے۔ ہم نے یتزاک رابن کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس کے مطابق فلسطینی آزاد ریاست کا وجود 1999 میں ہونا چاہیے تھا لیکن موجودہ حکومت اور انتہا پسند رہنماؤں نے رابن کو قتل کر دیا۔
اس کے بعد سے وہ فلسطینی اراضی پر قبضہ کر کے مزید بستیاں تعمیر کر کے، زیادہ سے زیادہ آباد کاروں کو لا کر اور فلسطینی شہریوں پر حملے کر کے اوسلو معاہدے اور دو ریاستی حل کو تباہ کر دیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس معاہدے کے مطابق مغربی کنارے کو تین علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ زون اے شہر ہے، زون بی قصبہ ہیں، اور زون سی میں اسرائیلیوں کا 100% کنٹرول ہے جو مغربی کنارے کا 61% ہے۔ ہم اس علاقے میں کوئی کمرہ نہیں بنا سکتے اور اگر آپ کچھ بناتے ہیں تو وہ آپ کو اجازت نہیں دیں گے اور اسے منہدم کر دیں گے۔ انتہا پسند یہودی آباد کار روزانہ عام فلسطینیوں پر حملے کرتے ہیں اور یہ اب معمول بن چکا ہے جو کی اب رک جانا چاہیے۔
سوال: امریکہ کے اعلیٰ رہنما 7 اکتوبر سے اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کا دورہ کر رہے ہیں۔ امریکی سیکرٹری جنرل انٹونی بلنکن نے بھی گزشتہ روز مغربی کنارے کا دورہ کیا اور فلسطینی صدر سے ملاقات کی۔ یہ جنگ کہاں جا رہی ہے؟