سپریم کورٹ نے مرکز سے سوال کیا کہ ’آپ اس شخص کو کتنے عرصے کےلیے رکھیں گے‘۔ یہ 62 سالہ پاکستانی شہری گذشتہ 7 برسوں سے حراستی مرکز میں بند ہے جبکہ اسلام آباد نے اسے اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ محمد قمر کی جانب سے بھارتی شہریت کےلیے سپریم کورٹ میں ایک درخواست داخل کی گئی۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس سوریہ کانت کی بنچ نے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل کے ایم نٹراج سے دریافت کیا، چونکہ اس پاکستانی شخص محمد قمر کی اہلیہ اور 5 بچے بھارتی شہری ہیں، تو کیا اسے رہا کرتے ہوئے بھارتی شہریت کےلیے درخواست داخل کرنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے، جس پر کے ایم نٹراج نے کہا کہ پاکستان، محمد قمر کو قبول نہیں کر رہا ہے، تو اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی، کیونکہ اس طرح کا معاملہ پہلی بار دیکھا گیا ہے تو اس سلسلہ میں مرکز سے ہدایت لینا ضروری ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے انہیں جواب داخل کرنے کےلیے مزید دو ہفتوں کا وقت دے دیا۔
محمد قمر کی جانب سے سینئر وکیل سنجے پاریکھ نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ حراستی مراکز میں رکھے گئے غیرملکیوں کی رہائی کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایت صرف بنگلہ دیشی شہریوں کے لیے ہے نہ کہ پاکستانی شہریوں کےلیے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تفریق کیوں کی جارہی ہے۔ پرکھ نے کہا کہ ہم صرف عدالت کے حکم کی تعمیل کےلیے کوشاں ہیں، جس پر نٹراج نے کہا کہ، ایک پاکستانی شہری، بھارت کے شہریوں کی طرح کس طرح مساوی حقوق مانگ سکتا ہے، اسے اس کا حق حاصل نہیں ہے۔
بنچ نے کہا ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل سے سوال کیا کہ ‘آپ اسے کب تک رکھنا چاہتے ہیں‘ اور جواب داخل کرنے کےلیے دو ہفتوں کا وقت دیا گیا۔ قبل ازیں 28 فروری کو، سپریم کورٹ نے مرکز سے کہا تھا کہ بھارتی شہریت حاصل کرنے درخواست دینے کے لیے مختصر مدت تک محمد قمر کو رہا کیا جائے جبکہ قمر نے اپنی ساڑھے تین سال کی سزا کاٹ لی ہے اور 2015 سے ایک حراستی مرکز میں بند اپنی وطن واپسی کا منتظر ہے۔ ایسے میں پاکستان کی جانب سے اسے اپنا شہری ماننے سے انکار کرنے کے بعد آپ اس شخص کو کب تک حراست میں رکھ سکتے ہیں؟
قمر کو 8 اگست 2011 میں میرٹھ سے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ عدالت نے ویزا سے زیادہ مدت تک قیام کرنے کے جرم میں ساڑھے تین سال جیل اور 500 روپئے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ 6 فروری 2015 کو سزا پوری کرنے کے بعد، پانچ بچوں کے والد محمد قمر کو پاکستان بھیجنے کےلیے نریلا میں لامپور کے حراستی مرکز میں لایا گیا تھا لیکن پاکستان نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا تب سے وہ اسی حراستی مرکز میں قید ہے۔