ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے ڈرون حملوں کی تحقیقات باضابطہ طور پر قومی تحقیقاتی ایجنسی کو سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔ این آئی اے اور نیشنل سیکورٹی گارڈ کے اہلکار پہلے ہی جموں وارد ہوئے ہیں، جہاں انہوں نے جائے وقوع کا معائنہ کیا۔
ان دھماکوں میں دو اہلکار زخمی ہوئے تھے لیکن سکیورٹی ایجنسیز کے لئے یہ پتہ لگانا ایک چیلنج ہے کہ ان حساس علاقوں تک ڈرون کیسے پہنچ گئے۔ ایک ڈرون دھماکہ خیز مواد کے ساتھ ایک عمارت کی چھت پر گرایا گیا جس کے بعد ہوئے دھماکے سے کنکریٹ کی چھت میں ایک بڑا سوراخ بن گیا ہے۔
اگر یہ ڈرون چند گز دور جہازوں کے لنگر کی جانب جاکر گر جاتا تو لڑاکا جہاز بھی اس کی زد میں آسکتے تھے۔ ان دھماکوں میں دو اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ تحقیقات کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے جائے وقوع پر تباہ شدہ ڈرونز کے باقیات نہیں پائے۔
یہ تحقیق اس لئے کی جارہی ہے تاکہ پتہ لگایا جائے کہ کہیں دور سے ان ڈرونز کو بارودی مواد کے ساتھ اڑاکر بھارتی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لئے استعمال تو نہیں کیا گیا ہے۔ قبل ازیں ہائی سکیورٹی جموں ایئر فورس اسٹیشن میں دھماکوں کے بعد آس پاس اور دیگر اہم ترین تنصیبات کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق نیشنل سکیورٹی گارڈ اور این آئی اے کی ٹیم کو دھماکوں کی جگہ سے تباہ شدہ ڈرونز کا ملبہ نہیں ملا۔
این آئی اے کی ٹیم اس بات کا پتہ لگارہی ہے کہ ان ڈرونز کو مقامی لانچ پیڈ سے اڑایا گیا ہے یا لمبی دوری سے انہیں کنٹرول کیا گیا ہے۔ لمبی دوری کا مطلب یہ ہے کہ سرحد پار سے انہیں اڑایا گیا ہو۔ جموں و کشمیر پولیس نے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرکے مزید تحقیقات شروع کردی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ڈرون عسکریت پسندوں کو غیرمتناسب جنگ کی صلاحیت فراہم کرتا ہے