مولانا عبدالخالق ندوی نے بتایا کہ 'نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اہل قریش بھی اس دن کے روزے کا اہتمام کرتے تھے، اس سے پتا چلتا ہے کہ یوم عاشورہ کی ملت ابراہیمی میں اہمیت تھی کیونکہ قریش کے لوگ ملت ابراہیمی کے مطابق عمل کرتے تھے۔
مولانا نے کہا کہ پہلے یوم عاشورہ کا روزہ فرض تھا لیکن جب سنہ 2 ہجری میں رمضان المبارک کے روزں کی فرضیت کا حکم آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے روزے کی فرضیت کو عام مسلمانوں کے لئے ختم کر دیا لیکن خود اس کا اہتمام ضرور کرتے تھے، لیکن جب نبی کریم ﷺ یہ بات پتا چلی کہ یہودی بھی اس دن کا روزہ رکھتے اور اس روزہ کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ 'اس دن یعنی 10 محرم کو اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کی قوم سے نجات دی تھی تو اس کے شکرانے میں ہم روزے کا اہتمام کرتے ہیں'۔ جس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 'ہم ان سے زیادہ اس شکرکے مستحق ہیں اس لئے ہم اس دن روزہ رکھیں گے اور ایک کے بجائے دو رکھیں گے'۔