معروف مؤرخ نے کہا کہ 'علی گڑھ ایک تاریخی شہر ہے۔ آج سے تقریبا 800 سال پہلے یعنی 1200ء سے لے کر 1803 تک اس شہر کا نام کول تھا اور 1803 میں علی گڑھ شہر کا نام جرنل نجف علی خان کے نام پر مراٹھوں نے 'علی گڑھ' رکھا۔ علی گڑھ شہر پوری دنیا میں اپنے تالے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ہی اس شہر کو پوری دنیا میں ایک منفرد شناخت اور پہچان دلائی ہے۔
کیا شہر کے نام بدلنے سے شہر میں امن و امان، نوکریاں، بےروزگاری، بدحالی، کو دور کیا جا سکتا ہے؟ یا ضلع پنچایت اور بی جے پی رہنما 2022 کے انتخابات کے مد نظر حکومت کی خوشنودی کے لئے اس طرح کے اقدامات کر رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ تاریخی شہروں کے نام نہ بدل کر نئے شہر آباد کئے جائیں جن کے نام اپنی مرضی کے مطابق رکھے جائیں۔
پدم بھوشن معروف مؤرخ پروفیسر عرفان حبیب نے بتایا کہ 'علی گڑھ اور بالائے قلعہ جو اوپر کوٹ پر ہے ان کا سب سے پہلے ذکر تقریبا 1200ء میں آتا ہے، یعنی آٹھ سو سال قبل اس شہر کا نام ' کول' تھا، جس کے آس پاس کھیتی باڑی بھی ہوتی تھی، شراب بنائی جاتی تھی جس کا ذکر تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ معروف سیاح ابن بطوطہ نے بھی یہاں کا دورہ کیا اور کول کا ذکر کیا۔