بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی آبادی مسلسل کم ہو رہی ہے۔ گزشتہ 50 سالوں میں ملک کی کل آبادی دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے لیکن ہندوؤں کی تعداد کم ہو کر تقریباً 75 لاکھ رہ گئی ہے۔
ہندوؤں کے علاوہ بدھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد کم و بیش مستقل رہی ہے۔ آزاد بنگلہ دیش میں پہلی مردم شماری 1974 میں ہوئی تھی۔ اس وقت ہندو آبادی 13.5 فیصد تھی۔ اس کے بعد مزید چار مردم شماری کرائی گئی۔ سال 2011 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق بنگلہ دیش کی کل آبادی میں ہندوؤں کا حصہ 8.5 فیصد ہے۔
بنگلہ دیش بیورو آف اسٹیٹسٹکس (بی بی ایس) نے اپنی 2011 کی آبادی اور مکانات کی مردم شماری کی رپورٹ میں ملک میں ہندو آبادی میں کمی کی دو وجوہات بتائی ہیں۔ ان میں سے ایک ہندوؤں کا اخراج ہے اور دوسرا ہندوؤں میں نسبتاً کم شرح پیدائش ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہندوؤں کے گھروں میں نسبتاً کم بچے ہیں۔
تاہم، بنگلہ دیش میں اسہال کی بیماری کے بین الاقوامی تحقیقی مرکز نے، دو اور تنظیموں کے ساتھ مل کر، ملک کے ایک چھوٹے سے حصے میں ایک مطالعہ کیا اور پتہ چلا کہ ہندوؤں کی کم نقل مکانی اور کی شرح پیدائش کے علاوہ، اس کمیونٹی میں بچوں کی شرح اموات نسبتاً زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی آبادی کم ہو تی جارہی ہے۔
سیاسی رہنما، سوشلسٹ، ہندو برادری کے رہنما اور محقق کم و بیش اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں ان کی آبادی میں کمی کی بڑی وجہ ہندوؤں کی بیرون ممالک منتقلی ہے۔ اس ہجرت کے پیچھے ایک تاریخی رجحان رہا ہے۔