اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

گروگرام: 8 مقامات پر نماز جمعہ کی اجازت ختم

گزشتہ کچھ مہینوں سے ہندوتوا تنظیموں کے ذریعہ گروگرام کے کئی مقامات پر کھلے میں نمازِ جمعہ کے خلاف مظاہرہ کیا جا رہا تھا اور وشو ہندو پریشد کے ساتھ کچھ دیگر ہندوتوا تنظیموں نے مل کر آج اعلان کیا تھا کہ وہ سبھی 37 مقامات پر کھلے میں نماز کی مخالفت کریں گے۔

نماز جمعہ کی اجازت ختم
نماز جمعہ کی اجازت ختم

By

Published : Nov 3, 2021, 9:55 AM IST

دہلی سے متصل ہریانہ کے شہر گروگرام میں ہندو شدت پسند تنظیموں کے سخت احتجاج کے بعد آخر کار انتظامیہ نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ گروگرام میں کھلے 8 مقامات پر نمازِ جمعہ کی ملی اجازت کو ختم کر دیا ہے۔

گزشتہ کچھ مہینوں سے ہندوتوا تنظیموں کے ذریعہ گروگرام کے کئی مقامات پر کھلے میں نمازِ جمعہ کے خلاف مظاہرہ کیا جا رہا تھا اور وشو ہندو پریشد کے ساتھ کچھ دیگر ہندوتوا تنظیموں نے مل کر اعلان کیا تھا کہ وہ سبھی 37 مقامات پر کھلے میں نماز کی مخالفت کریں گے۔

اب جن مقامات پر نمازِ جمعہ اب نہیں ہو پائے گی ان میں بنگالی بستی سیکٹر 49، وی بلاک ڈی ایل ایف-3، سورت نگر فیز 1، کھیڑی ماجرا گاؤں کے باہر، دوارکا ایکسپریس وے پر دولت آباد گاؤں کے پاس، سیکٹر 68 گاؤں رام گڑھ کے پاس، ڈی ایل ایف اسکوائر ٹاور کے پاس اور گاؤں رام پور سے نکھڈولا شامل ہیں۔مختلف ریزیڈنٹ ویلفیئر ایسو سی ایشن (آر ڈبلیو اے) کے اعتراض کے سبب گروگرام ضلع انتظامیہ نے منگل کو 8 مقررہ مقامات پر نماز ادا کرنے کی اجازت ختم کر دی۔

بتایاجارہا ہے رپورٹ کے مطابق ڈپٹی کمشنر گروگرام کے ذریعہ نماز ادا کرنے کے مقامات کی نشاندہی کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جس میں ایس ڈی ایم، اے سی پی، ہندو/مسلم تنظیموں کے اراکین اور دیگر سماجی تنظیموں کے اراکین شامل کیے گئے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ فریقین سے بات چیت کرنے کے بعد یہ کمیٹی طے کرے گی کہ مستقبل میں نماز ادا کرنے کے لیے کن مقامات کا استعمال کیا جائے تاکہ مقامی لوگوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔
مزید پڑھیں:گڑگاؤں: نماز جمعہ کے وقت ماحول خراب کرنے کی کوشش


گروگرام پولیس کے ترجمان سبھاش بوکین کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ نماز صرف عیدگاہ، مسجد یا مقرر کردہ مقامات پر ہی ادا کی جا سکتی ہے۔ اس معاملے میں کمیٹی کے ذریعہ لیے گئے فیصلے سے دونوں تنظیموں کا بھائی چارہ اور سماجی یگانگت برقرار رکھنے کی کوشش کمیٹی کرے گی۔ اس کے لیے فریقین کے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details