بھارتی تاریخ کے عظیم پہلوان غلام محمد عرف گاما پہلوان کا ریاست بہار کے ضلع گیا سے گہرا لگاؤ رہا ہے۔ وہ کشتی کے اکھاڑے میں " دی گریٹ گاما" رستم زماں کے نام سے مشہور تھے۔
گاما ایک ایسے پہلوان تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی کُشتی نہیں ہاری۔ کہا جاتا ہے کہ بروسلی بھی گاما پہلوان سے متاثر تھے اور انہوں نے گاما سے متاثر ہوکر ہی یہ فن سیکھا تھا۔
گاما پہلوان کو رستم زماں بنانے میں شہر گیا کے سیجووار اسٹیٹ کے مالک گووند جی سیجووار کا اہم کردار رہا ہے۔
انیسویں صدی کے شروع میں گاما پہلوان کا گیا سے قلبی اور پہلوانی کا رشتہ جڑ چکا تھا۔ وشنو پتھ مندر کے علاقہ میں واقع سیجووار اسٹیٹ کا وہ کُشتی کا اکھاڑا جہاں گاما پہلوان، غلام بخش پہلوان، اندھا پہلوان اور دوسرے مسلم پہلوانوں کی کُشتی ہوا کرتی تھی، وہ اکھاڑا آج بھی موجود ہے. یہاں گوند جی سیجووار کی تصویر کے ساتھ گاما پہلوان کی تصاویر موجود ہیں۔
گیا کے سیجووار اسٹیٹ میں عظیم پہلوان" گاما" پہلوان کے کشتی کا اکھاڑا آج بھی موجود ہے۔ سیجووار اسٹیٹ میں گاما پہلوان کی کشتی سے جڑی تمام یادیں محفوظ ہیں۔ گاما پہلوان تقسیم ہند کے وقت پاکستان چلے گئے تھے۔ تاہم آج بھی گیا میں ان کی کشتی کے شیدائی موجود ہیں۔ وشنو پتھ میں واقع سیجووار اسٹیٹ کے مالک نے کہا 'ہمارے آبا و اجداد نے جب مسلمانوں سے تفریق نہیں کی تو ہم کیسے کرسکتے ہیں۔
گوند جی سیجووار کے پوتے ہیرا ناتھ کہتے ہیں کہ گاما پہلوان کو ان کے دادا کی نگرانی میں تربیت دی گئی تھی۔ گوند جی کا وزن گاما پہلوان سے زیادہ تھا۔ چھ ماہ تک مسلسل ریہاں رہ کر گاما پہلوان نے کشتی کی ہے۔ گاما پہلوان کی غذائی ضروریات کی تکمیل کے لیے اس وقت لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے تھے۔
گیا سے ہی تکنیکی طور پر گاما پہلوان مضبوط ہوئے تھے اور جبانہوں نے کلکتہ میں کشتی میں شرکت کی اور بڑے بڑے پہلوانوں کو شکست دی تو وہیں، انہیں" رستم ہند‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔