ریاست بہار کے ضلع گیا کے رہنے والے ستیندر گوتم مانجھی نے بنجر زمین کو پندرہ سال کی سخت مشقت کے بعد سرسبزوشاداب بنایا ہے۔
ماؤنٹین مین دشرتھ مانجھی کے کردار سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنے باغ میں کام کرنا شروع کیا۔ یہ باغ دس ہزار درختوں پر مشتمل ہے۔ اس میں زیادہ تر امرود کے درخت ہیں۔ یہ جگہ بنجر اور ویران تھی اور ہر جگہ سے ریت ہی تھی۔ شروع میں بہت پریشانی ہوئی کیونکہ آبپاشی کا انتظام نہیں تھا۔ نصف کلو میٹر دور گھر سے برتن میں اپنی اہلیہ کے ساتھ پودوں میں ڈالنے کے لیے پانی لاتے تھے۔
ضلع گیا کے بیلاگنج بلاک میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں املہیا چک سے تعلق رکھنے والے ستیندر گوتم مانجھی نے ذاتی طور پر پھلگو ندی کے ایک ٹاپو کی زمین پر ایک بہت بڑا باغ لگایا ہے۔ پندرہ سال کی سخت محنت و مشقت سے دس ہزار سے زائد سبز درخت لہلہا رہے ہیں۔
ستیندر مانجھی بیلاگنج کے علاقے میں گرو جی کے نام سے مشہور ہیں کیونکہ وہ میٹرک کے طلبا کو کوچنگ بھی کراتے تھے۔
ستیندر نے ای ٹی وی بھارت اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ماؤنٹین مین دشرتھ مانجھی کے کردار سے متاثر ہو کر اپنے باغ میں کام شروع کیا۔ یہ دس ہزار درختوں پر مشتمل ہے جس میں زیادہ تر امرود کے درخت ہیں۔'
حالانکہ یہ زمین پوری طرح سے سرکاری ہے اور اب اس کا فائدہ مانجھی سیدھے طور پر اٹھا رہے ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے اس پر کبھی روک ٹوک نہیں ہوئی ہے بلکہ "ہریالی" پر کام کرنے کے لیے مانجھی کو موجودہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ابھشیک کمار کے ہاتھوں اعزاز بھی بخشنے کا دعوی ہے۔
مانجھی اور اس گاؤں کے کئی افراد پھلگو ندی کے کنارے پر ریت کو ہٹا کر کاشت بھی کر رہے ہیں۔ املہیا چک کے پھلگوندی کے کنارے کئی ہیکڑ زمین پر گیہوں، آلو، سرسوں کی بھی کھیتی کی گئی ہے لیکن پھر بھی ستیندر گوتم مانجھی بنجر علاقے کو سرسبزوشاداب بناکر وہ "ہریالی" مشن کے امبیسڈر کے طور پر بھی مشہور ہورہے ہیں جس جگہ پر درخت لگے ہوئے ہیں وہاں پر پندرہ برس پہلے پودے کو لگا کر اس کی دیکھ بھال کرنا آسان نہیں تھا۔
آبپاشی کے لئے پانی کا دور تک انتظار نہیں تھا، ایک کلو میٹر دور گھر سے برتن میں اپنی اہلیہ کے ساتھ پودوں میں ڈالنے کے لیے پانی لاتے تھے۔
ستیندر مانجھی کہتے ہیں کہ شروعاتی دور میں لوگ پو دے لے کر بھاگ جاتے تو جانور پودوں کو ختم کردیتے تھے پھر جنگل سے جھاڑیوں کو لایا اور پھر چاروں طرف سے حصار کیا۔ اب ان کے باغ کی حفاظت کانٹے کی دیوار کرتی ہیں۔