پٹنہ:بھارت کی تحریک آزادی میں حصہ لینے والے بہار کے جن مجاہدین کے نام لیے جاتے ہیں ان میں پروفیسر عبدالباری کا نام سرفہرست ہوگا۔ آزادی کی تحریک کی کہانی پروفیسر عبدالباری کے تذکرہ کے بغیر ادھوری ہے۔ مہاتما گاندھی، خان عبدالغفار خان اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے بڑے رہنماؤں کے ہمسایہ چلنے اور انگریزوں سے لوہا لینے والے پروفیسر عبدالباری اپنی جانثاری کے لیے ملک بھر میں معروف ہوئے۔ پروفیسر عبدالباری کا نام نہ صرف مجاہدین کے حوالے سے بلکہ قومی سطح پر مزدور یونین کے ایسے قائد کے طور پر بھی لیا جاتا ہے جن کی ایک آواز نے بہار قانون ساز کونسل کے کام کاج کو ٹھپ کر دیا تھا۔ سنہ 1936 میں جب ٹاٹا ورکرس یونین کا قیام عمل میں آیا تو پروفیسر عبدالباری اس کے سربراہ مقرر کیے گئے جس میں بیک وقت بہار، اُڑیسہ اور جھارکھنڈ کی پچاس لیبر یونین شامل تھیں۔ Freedom Fighter Professor Abdul Bari forgotten
Freedom Fighter Professor Abdul Bari مجاہد آزادی پروفیسر عبدالباری کی قبر پر کوئی فاتحہ پڑھنے نہیں آتا
جنگ آزادی میں انگریزی فوج سے لوہا لینے والوں میں بہار کے پروفیسر عبدالباری کا نام قابل ذکر ہے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی اور مولانا ابولکلام آزاد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ملک کو آزادی دلائی لیکن آج ان کی تمام قربانیوں کو فراموش کر دیا گیا ہے اور ان کی قبر پر کوئی فاتحہ پڑھنے والا بھی نہیں۔ Unsung hero of India Freedom Fight Pro. Abdul Bari
پروفیسر عبدالباری کا سیاسی قد بھی اتنا بڑھتا گیا کہ وہ بہار کانگریس کے پہلے ریاستی صدر بھی منتخب ہوئے اور آزاد بھارت میں بہار کے پہلے وزیراعلیٰ کے طور پر پروفیسر عبدالباری کا نام بڑے زور و شور سے گردش کر رہا تھا لیکن 28 مارچ 1947 کو دھنباد سے پٹنہ کے راستے خسرو پور کے پاس ان کی گاڑی روک کر آئی این اے کے فوجی گارڈ نے انہیں گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔ بھارتی معاشرے میں سماجی اصلاحات اور سماجی عدم مساوات کو دور کرنے والوں کی جانب سے آج اسی مرد مجاہد پروفیسر عبدالباری کو ہر سطح سے فراموش کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے اس مجاہد آزادی کی خدمات سے نئی نسلوں کو نہ کبھی متعارف کروانے کی کوشش کی اور نہ کانگریس رہنما کبھی ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آئے۔ India's Freedom Struggle
پٹنہ شہر کے قدیم کنواں میں واقع پیر موہنی قبرستان میں خاک تلے دبے ہوئے پروفیسر عبدالباری کی قبر گندگی و جنگل سے گھری ہوئی ہے۔ قبر کے چاروں طرف جنگلی گھاس اُگ گئی ہیں۔ صفائی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر کوئی یہاں فاتحہ پڑھنے آ گیا تو انہیں جھاڑیاں صاف کر کے اندر جانا پڑتا ہے۔ پیر موہنی قبرستان کے صدر مہتاب عالم کہتے ہیں کہ 'سال میں صرف ایک بار ہی ٹاٹا ورکرس ہی یہاں یوم وفات کے موقع پر آتے ہیں اس کے بعد کوئی نہیں آتا اس لیے یہاں صفائی نہیں ہو پاتی۔ حالانکہ 2019 میں وزیراعلیٰ نتیش کمار پروفیسر عبدالباری کی قبر کی زیارت کرنے آئے تھے اور یہاں کی خستہ حالی کو فوری طور پر ٹھیک کرنے کی ہدایت دی تھی لیکن آج تک اعلیٰ افسران کی جانب سے اس پر عمل نہیں ہوا جب کہ پروفیسر عبدالباری کے نام پر شہر میں عبدالباری پتھ، عبدالباری بھون اور کوئلور میں عبدالباری پُل قائم ہے، اس کے باوجود حکومت کی عدم توجہی کو افسوسناک کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے اب ریاستی حکومت سے لوگوں نے مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ پروفیسر عبدالباری کے یوم وفات پر سرکاری تقریب کا اہتمام کیا جائے تاکہ ان کی خدمات سے نئی نسل واقف ہو۔