جموں و کشمیر پولیس نے گذشتہ روز سرینگر کے پانچ مقامات پر چھاپا ماری کی اور چار صحافیوں کو پوچھ تاچھ کے لیے طلب کیا۔ تاہم دیر رات رہا کیا گیا۔
سرینگر میں ایک سینئر پولیسافسر کے مطابق "بدھ کے روز صبح 6 بجے سے چھاپہ ماری کی کارروائی شروع کی گئی۔ پانچ جگہ چھاپے مارے گئے جن میں چار صحافیوں (حلال میر، شاہ عباس، شوکت موٹا اور اظہر قادری) کی رہائش گاہ بھی شامل تھی۔ پانچویں جگہ موٹا کے سسرال پر بھی چھاپا مارا گیا۔'
اُن کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ برس سرینگر کے کوتھی باغ میں کشمیر فائٹ بلاگ کے حوالے سے اف ائی آر (82/2020) درج گئی۔ اسی معاملے کی تحقیقات کی وجہ سے ان صحافیوں کے گھر پر چھاپا مارا گیا اور ان کو پوچھ تاچھ کے لیے طلب کیا گیا۔ پھر رات کو تقریباً آٹھ بجے رہا کر دیا گیا۔ آج پھر اُن کو پوچھ تاچھ کے لیے تھانے میں حاضری دینی ہے۔'
اُن کا کہنا تھا کہ یہ چھاپے ماری 'صبح 6 بجے راج باغ (عباس)، سات بجے بیمنا (میر اور قادری) اور آخر میں موٹا کے سسرال (لال بازار) اور گھر (چھینا پورہ) میں کی گئی تھی۔
وہیں رہا کیے گئے صحافی کا کہنا تھا کہ 'ہم تب سو رہے تھے جب پولیس کا چھاپہ پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: سرینگر میں چار صحافیوں کے گھروں پر پولیس کے چھاپے
انہوں نے ہمارے گھر کی تلاشی لی اور فون، لیپ ٹاپ، کے علاوہ ہارڈ ڈسک بھی ضبط کر لیے۔ ہمارے پاسپورٹ بھی ضبط کیے گئے۔
ایک دوسرے صحافی کا کہنا تھا کہ نہ صرف میرا بلکہ ہمارے فیملی ممبرز کے فون ضبط بھ کیے گئی ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اب ہمارے کنبے کے افراد کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔'
اُن کا کہنا تھا کہ 'پوچھ تاچھ کے دوران ہم سے ہمارے کام اور دیگر کام کے بارے میں پوچھا گیا تاہم کس معاملے میں پوچھ گچھ ہو رہی ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔'