کیرالہ کے شہر ایرناکولم میں ایک ایسا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جس سے آپ ایک ماں کی جدوجہد کی حقیقی تصویر سے روبرو ہو پائیں گے۔
ریشما ایک ماں کے طور پر اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیتے ہوئے نظر آرہی ہیں۔ حال ہی میں ان کا ایک 23 سکینڈ کا ویڈیو خوب وائرل ہو رہا ہے۔ اس میں ریشما اپنے بچے کو کندھے اور پیٹ سے باندھے ہوئے ایرنالولم کی گلیوں میں فوڈ ڈلیوری کے لیے جارہی ہیں۔ ریشما معروف فوڈ ڈلیوری ایپ سویگی کی ایک ڈلیوری اسٹاف ہیں۔
پیشہ وارانہ فرائض انجام دینے والی ماں کی داستان ! فوڈ ڈلیوری کرنے والی یہ ماں سوشل میڈیا پر اب ایک اسٹار بن گئی ہے جو ماں کے کردار کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کو کامیاب بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 23 سکینڈ کا یہ ویڈیو خواتین کی ہمت اور اس کی روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے جدوجہد سے روبرو کروا رہا ہے۔
اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ریشما جہاں اسکوٹی چلا کر وقت پر فوڈ ڈلیوری کرنے جارہی ہیں وہیں، بچہ بھی ماں کے سینے سے لپٹا ہوا نظر آرہا ہے۔
ریشما کولم ضلع کے چناککڑا کی رہنے والی ہیں۔ وہ اس وقت اپنے روزگار کے لیے ایرناکولم کے ایڈیپلی میں مقیم ہیں۔ ان کا یہ ویڈیو کسی نامعلوم شخص کے ذریعہ ریکارڈ اورپوسٹ کیا گیا ہے جسے لوگ خوب پسند کر رہے ہیں۔ وہیں، ریشما اس بات سے بے خبر تھی کہ انٹرنیٹ پر ان کا یہ ویڈیو خوب وائرل ہو رہا ہے۔ جب ریشما کے کسی دوست نے اس وائرل ویڈیو کو ایک سوشل میڈیا گروپ پر پوسٹ کیا تب ریشما کو اس کی جانکاری حاصل ہوئی۔
ریشما کہتی ہیں کہ ان کے پاس اپنے بچہ کو اس چلچلاتی دھوپ میں کام پر لے جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ میں بچے کو ہفتے کے تمام 6 چھ دن ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑ کر جاتی ہوں لیکن اتوار کے روز وہاں بچے کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے اسے اپنے ساتھ لے کر نکلنا ہوتا ہے۔
ریشما کہتی ہیں کہ ہفتے کے آخر کے دو دن زیادہ کام ہوتا ہے اور معاشی دقتوں کی وجہ سے مجھے سینچر اور اتوار کو کام کرنا پڑتا ہے۔ چار سال پہلے اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کے بعد ہم کوچی منتقل ہوگئے۔ کیونکہ میں نے اپنی پسند سے شادی کی، اس لئے میرے اہل خانہ میرا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔ بارہویں جماعت کے بعد میں نے ایک ڈپلومہ کورس کیا اور اس کے بعد میری شادی ہوگئی۔ اب اس کے بعد میں کارپوریٹ اکاؤننٹنگ میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں۔
ریشما کے شوہر راجو اپنے گھر والوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات میں ایک ہوٹل میں کام کر رہے ہیں۔راجو ہر ماہ ریشما کو اپنی کمائی کا کچھ حصہ بھیجتے ہیں، لیکن ان کے رقم سے محض گھر کا کرایہ، ڈے کئیر فیس اور بنیادی اخراجات ہی مکمل ہو پاتے ہیں۔ ریشما کو اپنے انسٹی ٹیوٹ میں فیس ادا کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ریشما کا بچہ ابھی چھوٹا بھی ہے اور ریشما کو اپنی تعلیم بھی مکمل کرنی ہے۔ اس لیے وہ اپنے بچے کو کندھے سے باندھ کر روزانہ 12 بجے سے لے کر رات کے 9 بجے تک گھر گھر فوڈ ڈلیوری کا کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اس کام سے خوش ہیں۔