ریاست بہار کے ضلع گیا میں دو سو برس پہلے رنگریز برادریDyers Community نے رنگین و سفید کپڑوں کو رنگنے کا کاروبار شروع کیا تھا، لیکن اب اس تکنیک کو جدیدیت کی جنگ اور حکومت کی بے توجہی کا سامنا ہے۔ پرانے کپڑوں کو رنگ کر استعمال کرنے کا رجحان بھی اب کم ہو گیا ہے، حالانکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار Bihar CM Nitish Kumar نے دست کاری کے فروغ کے لیے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا تاہم محکمہ صنعت Department of Industry کے پاس کئی مہینوں سے فائلیں پڑی ہیں، بتایا جاتا ہے کہ بہار میں کپڑے کی رنگائی سب سے پہلے گیا میں شروع ہوئی تھی۔
گیا میں رنگریز برادری Dyers Community of Gaya کی پہچان دست کاری کے لیے معروف ہے دست کاری میں چھپائی اور رنگائی دونوں شامل ہیں یہ دونوں کام سبھی طرح کے کپڑے پر ہوتے ہیں، کہا جاتا ہے گیا میں موسیقی کی روایت جتنی قدیم ہے اس سے کہیں زیادہ پرانی رنگریز تکنیک ہے۔ چھپائی کے کام سے جڑے لوگوں کے مطابق شہر کی یہ رنگریز تکنیک دو سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہے ملک کی آزادی کے بعد کچھ برسوں تک شادی بیاہ، پوجا ہون اور دیگر خوشی کے موقع پر رشتے داروں کے یہاں کپڑوں کا تبادلہ سمیت سبھی طرح کے خوشی کے موقع پر رنگے ہوئے کپڑوں کی کافی مانگ تھی خاص طور پر شادی میں رنگی ہوئی دھوتی ہی پہنی جاتی تھی اور رنگے ہوئے کپڑے شادی میں نہیں ہوتے تو وہ شادی مبارک تسلیم نہیں کی جاتی۔
موجودہ وقت میں قلب شہر میں چوک کے پاس واقع رنگریز گلی اس بات کی گواہ ہے، قریب چار سو فٹ لمبی اور دس فٹ چوڑی اس پوری گلی میں تب کے وقت رنگائی کیے ہوئے کپڑے ہی جھولتے رہتے تھے اس گلی میں رہنے والے لوگوں کا یہی رنگائی کا کاروبار تھا۔ اس محلے کے علاوہ بھی شہر کے پنچایتی اکھاڑا سمیت کئی اور محلوں میں رنگریز تکنیک کا بول بالا تھا، گھر کے پرانے کپڑے بھی رنگ کر استعمال میں لائے جاتے تھے لیکن جس تیزی کے ساتھ شہر میں جدید ٹیکنالوجی اور مشینوں کا استعمال ہونے لگا اس سے کہیں زیادہ پرانی چیزیں جن سے شہر اور ایک طبقہ معروف تھا وہ چیزیں بھی بند ہونے لگیں۔ اب رنگریز برادری کی دست کاری میں رنگائی کے کام شہر کے دو کنبہ میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔
موجودہ وقت میں رنگریز رنگائی کے کام میں لگے محمد ممتاز نے بتایا کی ان کے آبا و اجداد جن میں بھورے میاں شامل ہیں انہوں نے دو سو برس پہلے اس کی شروعات کی تھی گیا میں رنگائی اور چھپائی خاص طور پر چاندی کے طبق کی چھپائی کے لیے لوگوں کو ہفتے انتظار کرنا پڑتا تھا اب حالات بالکل الٹ گئے ہیں اب کسٹمر آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے روزانہ چار پانچ کام ہی آتے ہیں اتنے کام سے اہل خانہ کی پرورش نہیں ہو پاتی ہے گھر کے زیادہ تر افراد روزی روٹی کے لئے دوسرے روزگار کی طرف رخ کرنے لگے ہیں۔