لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ عربی و عرب کلچر کے پروفیسر ڈاکٹر ایاز اصلاحی Prof. Dr. Ayaz Islahi کہتے ہیں کہ جس طریقے سے بنگلہ دیش نے ڈاکٹر ذاکر نائیک Dr. Zakir Naik کی کتاب پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہوئے اس سے شدت پسندی اور دہشت گردی پھیلانے کا الزام Accused of Spreading Extremism and Terrorism عائد کیا تھا جس کے نتیجے میں بھارتی حکومت نے ذاکرنائیک پر کاروائی شروع کردی تھی اور نتیجتا انہوں نے بھارت چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی اور ملائیشیا کی شہریت حاصل کرلی اسی طرز پر سعودی حکومت تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کر ایک راہ ہموار کیا جس کا آنے والے دنوں میں خطرناک نتائج سامنے آنے کا خدشہ ہے۔
سعودی حکومت اپنے نظریات سے منحرف ہو گئی ہے ڈاکٹر ایاز اصلاحی کہتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا کہ سعودی حکومت مولانا مودودی اور عبدالوہاب نجدی کی کتابیں تقسیم کیا کرتی تھی دین کی تبلیغ کیلئے ہر ممکن جدوجہد جاری رکھیں اور ہر ممکن کوشش کرتی تھیں، لیکن موجودہ وقت میں سعودی حکومت اپنے نظریات سے منحرف ہو گئی ہے اور مغربی تہذیب اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ایسے اقدامات کر رہی ہیں خاص کر اسرائیل اور ان کے حامی جماعتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایسے احکامات نافذ کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کرنے کی کوئی واضح وجہ نظر نہیں آرہی ہے جس پر کوئی رد عمل ظاہر کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ بے وجہ پابندی عائد کرنا بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے اور انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ جس کے خلاف سبھی ممالک کو ساتھ آکر احتجاج کرنا چاہئیے خاص کر مسلم ممالک کو ایک ساتھ سعودی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا سعودی حکومت کا یہ قدم نہ صرف اسلامی نظریے کے مخالف ہے بلکہ پوری اسلامی تہذیب و ثقافت اور بنیادی ڈھانچے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ سعودی حکومت کا جو قدیم نظریہ تھا اس میں تبدیلی آئی ہے اور موجودہ وقت میں اسرائیل و ان کے حامیوں کو خوش کرنے کے لئے سعودی حکومت متعدد اقدامات کر رہی ہے اسی کا ایک حصہ تبلیغی جماعت پر پابندی بھی عائد کرنا ہے۔
- مزید پڑھیں:Reaction on Tablighi Jamaat Ban in Saudi: سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی پر علماء کا ردعمل
سعودی عرب کا تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کرنے سے افغانستان میں طالبان حکومت سے سعودی عرب کا کیا رشتہ ہوگا اور کیا کس طریقے سے تعلقات ہوں گے اس پر انہوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان پر جب طالبانیوں کا پہلا قبضہ ہوا تھا تو اس وقت سعودی حکومت نے سب سے پہلے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا لیکن موجودہ وقت میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور سعودی حکومت کے نظریات میں بھی واضح تبدیلی نظر آرہی ہے لہذا طالبان سے کیا رشتے ہوں گے اور کس طریقے سے طالبان حکومت سے سعودی عرب اپنے رشتے ہموار کرے گی یہ آنے والا وقت بتائے گا۔تاہم موجودہ وقت میں جو رویہ ہے وہ بلکل جدا گا نہ ہے۔