پچھلے دو سالوں سے بالی ووڈ اداکار سونو سود اپنی اداکاری سے زیادہ سماجی خدمات انجام دینے کی وجہ سے سرخیوں میں بنے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے اب ہر کوئی ان کو اپنا آئیڈل مان رہا ہے۔
سونوسود کے ان خدمات سے نا صرف انکے مداح خوش ہیں بلکہ اب ہر انسان ان کی خدمات کی تعریف کر رہے ہیں۔ سونو سود جو اکثر فلمی اسکرین پر وِلن کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، حقیقی زندگی میں ہیرو کے کردار میں نظر آرہے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران سونو سود نے جب سوال کیا گیا کہ آپ کورونا مدت سے پہلے سونو سود تھے۔ اب لوگ آپ کو مسیحا، سپر مین اور دوسرے نام دے رہے ہیں، تو آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
اس پر سونو سود نے کہا کہ میں ایک عام آدمی ہوں اور میں سوچتا ہوں کہ جب آپ عام لوگوں سے جڑ جاتے ہیں، تب آپ اپنی حقیقت کو جانچتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں اس سے بڑا کوئی بھی اعزاز نہیں ہوسکتا ہے کہ جس کو آپ کی ضرورت ہو اس سے رابطے میں رہوں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیا نام دیتے ہیں۔ جب تک کہ وہ آپ کو اپنا سمجھتے ہیں۔ یہ زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہوسکتی ہے
لوگوں نے بڑے پیمانے پر آپ پر اعتماد کیا ہے اور آپ نے اس اعتماد پر کھرے بھی اترے ہیں۔ یہ جو بھروسہ آپ نے قائم کیا ہے۔ آپ نے کس طرح منصوبہ بنایا اور آئندہ کیا کریں گے؟
مدد کی ہمیشہ ضرورت ہے۔ کورونا دور کے دوران لوگوں کی مشکلات منظرعام پر آئیں، جب مہاجر مزدور اپنے بچوں کے ساتھ پیدل گھر سے نکلے تو مجھے لگا کہ کل ان بچوں کو یہ محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ کسی نے بھی ان کے والدین کا ہاتھ نہیں پکڑا ہے۔ تب میں نے محسوس کیا کہ یہ ہاتھ میرا کیوں نہیں ہوسکتا اور پھر مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب پورے ملک جڑ گئے ۔
کشمیر سے کنیاکماری تک ایسی کوئی ریاست نہیں تھی جہاں ہم نے بسیں، ٹرینیں اور طیارے نہیں بھیجے تھے۔ قریب 10 لاکھ افراد شامل ہوئے لوگوں کو نوکریاں دلانی تھیں اور ان کا علاج بھی کرنا تھا۔ اس وقت مجھے اپنی ماں کی ایک بات یاد آتی ہے۔ اپنی مٹھی کھول کر تو دیکھ شاید کسی کی جان بچانے کے لکیروں میں کسی کی جان بچانا لکھا ہو، اور میں نے اس مٹھی کو کھولا ہے۔
ایک بڑا سوال یہ ہے کہ حکومتوں کی معیشت برباد ہوگئی ہے لیکن سونو سود کے لیے فنڈنگ جاری ہے، یہ انتظامات کیسے اور کہاں سے ہو رہے ہیں؟
انھوں نے کہا کہ میں نے اپنا راستہ خود بنایا ہے اور مجھ سے کہیں زیادہ ایسے افراد موجود ہیں جو کی کافی زیادہ باشعور اور بہت زیادہ پہنچ والے بھی ہیں۔ میرے خیال میں ارادہ کرنے سے بھی کافی زیادہ کام ہوتا ہے اور میں نے کبھی بھی اپنی حدود کو بند نہیں کیا۔
آپ یہ سب کر رہے ہیں تو پھر آپ الیکشن لڑ کر لیڈر کیوں نہیں بن جاتے؟
سیاست ایک کمال کا میدان ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگوں نے اسے رنگ دے دیا ہے۔ میں سیاست کے خلاف نہیں ہوں لیکن میرے خیال میں بطور اداکار ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ میں اپنا راستہ خود بناتا ہوں۔ میں نے پروٹوکول کی پیروی نہیں کی۔ میں سیاست سے پرہیز نہیں کرتا ہوں لیکن میں ابھی اس کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میں اب بھی لوگوں کی مدد کرنے کے قابل ہوں۔ سیاستدان بننے میں بہت زیادہ تیاری کی ضرورت ہوتی ہے جب بھی مجھے لگے گا کہ میں اس کے لیے تیار ہوں تو میں چھت کی چوٹی سے کہوں گا کہ ہاں میں تیار ہوں۔