ممبئی: کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی کو عوام کی جانب سے زبردست حمایت مل رہی ہے اور کانگریس پارٹی اقتدار میں آنے کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔ کانگریس کو ملنے والی حمایت کو دیکھ کر بی جے پی حیران ہے۔اپنی ہار کا یقین ہوتے ہی بی جے پی اب مذہب کے نام پر لوگو ں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوششوں میں جٹ گئی ہے۔ کبھی رام کے نام پر اور کبھی بجرنگ بالی کے نام پروہ ووٹ مانگنے لگی ہے، لیکن یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ وزیر اعظم کو مذہب اور مذہب کے نام پر سماج میں تفرقہ پیدا کرنے والی تنظیم میں فرق نہیں کرپارہے ہیں۔ یہ باتیں مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ناناپٹولے نے کہی ہیں۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے ناناپٹولے نے کہا کہ ہم بھی بجرنگ بلی کے بھکت ہیں، ہم ان کی پوجا بھی کرتے ہیں لیکن اس کی نمائش نہیں کرتے۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو لوٹنے والی کوئی تنظیم نہیں ہونی چاہیے لیکن کچھ لوگ مذہب کے نام پر لوٹ رہے ہیں۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو لوٹنے والی کوئی بھی تنظیم اگر کسی بھی مذہب میں ہوتو اس پر روک لگنی چاہئے۔ چونکہ بی جے پی کے پاس عوام سے کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اس لیے وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مذہب کے نام پر لوگوں میں تقسیم پیدا کرکے ووٹ مانگنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن کرناٹک کے لوگ بی جے پی کے اس مکروہ ارادے کوبخوبی سمجھتے ہیں۔
ناناپٹولے نے کہا کہ بی جے پی کا یہ کہنابالکل بے بنیاد ہے کہ اگر بجرنگ دل پر پابندی لگائی جاتی ہے تو یہ بجرنگ بلی کی توہین ہوگی۔سچائی یہ ہے کہ بی جے پی کو نہ رام سے کوئی محبت ہے اور نہ ہی ہنومان سے کوئی پیار۔ بلکہ کسی بھی مذہبی علامت سے اس کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو بیوقوف بناناچاہتی ہے اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتی ہے۔ بجرنگ دل کے نام پر چیخ پکار مچانے والی بی جے پی کے منوہر پاریکر نے کی حکومت نے ہی گوا میں شری رام سینا پر پابندی عائد کیے تھے۔ کیا اس وقت بی جے پی کو رام کے توہین کا احساس نہیں ہوا تھا؟ اس لیے بی جے پی کے لیے مذہب صرف ووٹ بینک کی سیاست کرنے کا ڈھونگ ہے اور عوام اس ڈھونگ کو خوب سمجھنے لگی ہے۔لوگ اب اس ڈھونگ کے شکار نہیں ہونگے۔