آج ہم آپ کو ایسے مجسمہ کے بارے میں بتائیں گے جو نہ صرف انسانی شکل و صورت کے ہوتے ہیں بلکہ ان میں بولنے سننے اور چھونے کی صلاحیت ہوتی ہے یہ اسٹیچو چل پھر بھی لیتے ہیں۔
لکھنؤ کے تاریخی عمارتوں کے قریب جہاں سیاحوں کا بے شمار ہجوم ہوتا ہے وہیں پر اب بولنے اور سننے اور چھونے والے اسٹیچو بھی نظر آ رہے ہیں، جسے سیاح دیکھ کر بے حد متاثر ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ سیلفی لے رہے ہیں۔ ان سے مضحکہ خیز دلچسپ حرکات و سکنات بھی صادر ہو رہے ہیں جو مزید دلچسپ بنا رہے ہیں۔
مجسمہ یا اسٹیچو بننا کتنا چیلنجنگ اور دلچسپ ہوتا ہے۔ اس فن کو کیسے سیکھا جاتا ہے اور عوام کا کیا رد عمل ہوتا ہے اور جو فنکار اس فن سے وابستہ ہیں، وہ اپنے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں۔ ان تمام سوالوں کا جواب جاننے کے لیے لکھنؤ کے اسٹیچو بوائے اروند سنگھ سے ای ٹی وی بھارت نے جاننے کی کو شش کی۔
اسٹیچو بوائے ونیے سنگھ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی روایت عام ہے اور وہاں کی حکومت میں بھی اس نوعیت کے فنون لطیفہ پر توجہ دیتی ہیں جس کے ذریعے سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوتا ہے لیکن بھارتی حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتی ہے۔ مزید برآں کہ پولیس بہت پریشان کرتی ہے اور شہر کے معروف مقامات پر کھڑے ہونے کے لیے اجازت نہیں دیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ ایسے فنون لطیفہ کو فروغ دینا چاہیے تاکہ لکھنؤ یا دیگر سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوسکے۔