انسان میں ادبی و شعری جنون ہو تو کسی بھی میدان میں رہے یہ جنون ہمیشہ برقرار رہتا ہے ساتھ ہی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروکار لاتے ہوئے شعر و ادب کے گیسو سنوارتا ہے لکھنؤ میں پولیس محکمہ میں تعینات اعلی پولیس افسر محمد علی ساحل کا شعری جنون اس قدر پروان چڑھا کہ نہ صرف ان کے دو شعری مجموعے منظر عام پر آئے بلکہ کئی ادبی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔
ایک شاعر پروگرام: پولیس افسر و شاعر محمد علی ساحل سے خصوصی گفتگو ای ٹی وی بھارت کے خاص پروگرام ایک شاعر کے تحت بات کرتے ہوئے محمد علی ساحل نے کہا کہ شعری جنون تو طالب علمی کے زمانے ہی سے تھا اور اسی دور سے تک بندی کیا کرتا تھا لیکن پولیس میں ملازمت شروع کیا اور نینی تال کے بعد جب 1993 لکھنو میں تبادلہ ہوا اس وقت لکھنؤ کے ادبی و شعری ماحول نے اور متاثر کیا۔ اسی دوران لکھنؤ کے گومتی نگر میں واقع مدرسہ وارثیہ سے ابتدائی اردو و عربی کی تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے بتایا کہ لکھنؤ آنے سے قبل گجل اور غزل میں فرق معلوم نہیں تھا۔ شعر و شاعری کا جنون اس قدر غالب رہا کہ اردو کی تعلیم حاصل کر کے جب روانی سے اردو پڑھنا لکھنا آگیا اس وقت باضابطہ طور پر شعر و شاعری کا آغاز ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ کہ اس سفر میں ہم نے مسلسل محنت و مشقت کی، جدوجہد کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو شعر و شاعری ہمیں نہ ہی وراثت میں ملی اور نہ ہی اردو زبان سے وابستگی کا پس منظر ہے بلکہ یہ خدا کی جانب سے یہ عطا کردہ انمول سرمایہ ہے جس کی وجہ سے سے آج اردو شاعری میں مسلسل شہرت حاصل ہو رہی ہے۔
اس کے بعد لکھنؤ کی ادبی نشستوں میں معروف شاعر منور رانا، انور جلال پوری سے ملاقات ہوئی انور جلال پوری کے ذریعہ واصف فاروقی سے تعارف ہوا اور ان کی شاگردی بھی حاصل کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایک شاعر سیریز: شہرت یافتہ شاعرہ چاندنی شبنم سے خصوصی گفتگو
انہوں نے بتایا کہ لکھنؤ سمیت میں دوحا قطر دبئی میں مشاعرے پڑھے جس میں میں خوب پذیرائی ہوئی۔
محمد علی ساحل نے ادبی و شعری میدان میں اب تک متعد ایوارڈز حاصل کیے جس میں 'راجیہ کرمچاری ساہتیہ اتر پردیش' ریاستی ملازمین کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے نوازتی ہے۔ انہوں نے فراق گورکھپوری ایوارڈ اور اکبر الہ آبادی وارڈ بھی حاصل کیا۔
نمونہ کلام
ہم ہیں تہذیب کے علمبردار
ہم کو اردو زبان آتی ہے
دور رہتی ہیں سدا ان سے بلائیں ساحل
اپنے ماں باپ کی جو روز دعا لیتے ہیں
خاموشی تیری میری جان لے لیتی ہے
اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا
ہم قلندر ہیں ہمیں آتا ہے فاقہ کرنا
ہم نے سیکھا ہی نہیں کوئی تماشا کرنا
آنسوؤں کو کبھی گرنے نہ دیا پلکوں سے
مجھ کو آیا ہی نہیں پیار کو رسوا کرنا
راہ حق میں تجھے ہستی کو مٹانا ہوگا
دیکھنا پھر ٹھوکر میں زمانہ ہوگا
بے وفا ہو کے بھی تو اتنی مقدس کیوں ہے
زندگی آج تجھے راز بتانا ہوگا