شاعر ناوک حمزہ پوری بہار کے کئی مشہور شعرا کے استاد ہیں اور انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ بھارت میں ان سے بڑا رباعی لکھنے والا کوئی شاعر نہیں ہے۔ وہ اب تک ہزاروں رباعی کے اشعار لکھ چکے ہیں۔
ناوک حمزہ پوری کی پیدائش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جن کا ادب سے گہرا تعلق تھا۔ ناوک حمزہ پوری کے والد مرحوم قوس حمزہ پوری اردو اور فارسی کے بڑے شاعروں میں ایک تھے۔ 19ویں صدی کے بڑے شاعر ادیب، محقق، مصنف اور اردو و فارسی کے استاد اور ریسرچ کرنے والے افراد اپنی تحریر کی اصلاح کرانے قوس حمزہ پوری کے پاس پہنچتے تھے۔ چونکہ ناوک حمزہ پوری کی پرورش ادبی ماحول میں ہوئی تھی تو وہ شاعری کو کم عمری سے سمجھنے لگے تھے۔
زمانہ طالب علمی میں جب اسکول سے کسی استاد سے ان کی لکھی ہوئی کتاب یا تحریر یا اشعار قوس حمزہ پوری سے اصلاح کرانے بھیجتے تھے تو اسے ناوک حمزہ پوری پہلے پڑھتے اور خود سے اصلاح کردیتے حالانکہ اس کے لیے ان کے والد ناراضگی کا اظہار بھی کرتے تھے۔
90 برس کی عمر پار کر چکے ناوک حمزہ پوری کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ آج بھی اس عمر میں انہیں پڑھنے لکھنے کا شوق ہے۔ طبیعت ناساز ہونے کے باوجود انہوں نے ای ٹی وی بھارت اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں جب وہ شاعروں کی تخلیق یا پھر مضامین کی اصلاح کرتے تھے اور اپنے اشعار لکھتے تو ان کے والد ناراض ہو کر شاعری کرنے سے منع کر دیتے تھے۔ والد کہتے تھے کہ شاعری مت کرنا اس میں نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ حالانکہ والد کے اس جملے کو سمجھ نہیں سکے کہ آخر کیوں وہ ایسا کہا کرتے تھے۔ لیکن ایک بات سے ناوک حمزہ پوری کے لیے شاعری کے حوالے سے راہیں ہموار ہوتی تھیں کہ جب وہ اپنے اشعار والد قوس حمزہ پوری کو دکھاتے یا پھر کسی کے اشعار کی اصلاح کر کے انہیں دکھاتے تو ان کی صلاحیت اور قابلیت کو دیکھ کر وہ خوش بھی ہو جاتے اور حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔