اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

ایک شاعر: عبدالمعید رشیدی سے گفتگو - विशेष पेशकश, एक कवि कार्यक्रम

ای ٹی وی بھارت اردو کی خاص پیشکش 'ایک شاعر پروگرام' میں آج ہم بات کریں گے ساہتیہ اکیڈمی یووا ایوارڈ یافتہ (2013)، نوجوان شاعر، اے ایم یو شعبۂ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر عبد المعید رشیدی سے۔

ایک شاعر:عبدالمعید رشیدی سے گفتگو
ایک شاعر:عبدالمعید رشیدی سے گفتگو

By

Published : Aug 24, 2021, 10:02 PM IST

ساہتیہ اکیڈمی یووا ایوارڈ یافتہ (2013)، نوجوان شاعر، اے ایم یو شعبۂ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر عبد المعید رشیدی نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ "میرے خاندان میں کہیں بھی کوئی شاعر دور دور تک میں دیکھتا ہوں تو نظر نہیں آتا لیکن میرے خاندان میں شاعری کا ذوق اور زبان کا ذوق یہ دونوں چیزیں بہت گہرے طور پر موجود رہیں۔'

ایک شاعر:عبدالمعید رشیدی سے گفتگو

عبدالمعید رشیدی کی پیدائش 27 جنوری 1988 میں کولکاتا میں ہوئی، آپ نے بی اے کی تعلیم مغربی بنگال، ایم اے (اردو) جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پہلے ایم فل اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اب اے ایم یو شعبۂ اردو میں گزشتہ سات برسوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔

ایوارڈس۔
1۔ ساہتیہ اکیڈمی یووا ایوارڈ (2014)
2۔ سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر میرٹ ایوارڈ (2010)
3۔ اردو اکیڈمی دہلی میرٹ ایوارڈ (2010)
4۔ یو جی سی جونیئر ریسرچ فیلو شپ (2010)
5۔ رانی کٹیایانی میموریل انعام (2009)


عبدالمعید رشید نے بتایا کہ شاعری کا شوق مجھے بچپن سے ہی تھا اور میں جس علاقہ میں پیدا ہوا وہاں شعری نشست، شاعری، مشاعرے اور مذاکرے یہ چیزیں ہوتی رہتی تھی جس کا اثر کہیں نہ کہیں پڑتا ہے اور مجھ پر بھی پڑا۔ اس کے بعد 2008 میں کلکتہ سے میں دہلی آگیا، دہلی آنے کے بعد کچھ ایسی شخصیات سے میرا تعارف ہوا، جن شخصیات کا براہ راست میرے اوپر اور میری زندگی پر اثر پڑا۔

میں سمجھتا ہوں جو فکری تشکیل ادھوری رہ گئی تھی وہ کلکتہ سے دہلی آکر جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی فضا میں پوری ہوگئی۔ دہلی کے بعد میں آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوں جہاں پر گزشتہ سات برسوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہوں اور اب بہت انتظار اور صبر کے بعد میں کہہ سکتا ہوں ہو کہ میری شاعری کا پہلا مجموعہ "آخری کنارے پر" ریختہ پبلیکیشن نے اس کو 2021 میں شائع کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک شاعر: ممتاز انور سے خصوصی گفتگو


عبدالمعید رشیدی نے بتایا کہ شاعری کا سفر بچپن سے لے کر اب تک اور زندگی بھر رہے گا۔ دھیرے دھیرے جس طرح انسان کی زندگی میں تبدیلی آتی ہے، فکر میں تبدیلی آتی ہے، اصولوں میں تبدیلی آتی ہے، اسی طرح اس کی شاعری میں بھی تبدیلی آتی ہے اور آتی رہے گی۔

راتوں رات ہی فانی ہونا پڑتا ہے
اس کے بعد ہی کہانی ہونا پڑتا ہے

اپنی ذات سے آگے جانا ہے جس کو
اس کو برف سے پانی ہونا پڑتا ہے

جب بھی عقل بناتی ہے پہلا مصرع
دل کو مصرعۂ ثانی ہونا پڑتا ہے

اپنی تنہائی کو بازار سمجھتے رہے ہم
زندگی تجھ کو خریدار سمجھتے رہے ہم

کیا خبر تھی کہ یہ ہجر خوشی بھی دے گا
عاشقی میں جسے آزار سمجھتے رہے ہم

رقص کرتا رہا دل خوب دھڑکتا رہا دل
ہاں یہی دل جسے آزار سمجھتے رہے ہم

اپنی تنہائی کو بازار سمجھتے رہے ہم
زندگی تجھ کو خریدار سمجھتے رہے ہم


ایک غزل کے چند اشعار

کہیں بہار کہیں پر خزاں کا موسم ہے
تمام شہر میں سود و زیاں کا موسم ہے

نہ راس آئے گی ابھی ہم کو یہ آب و ہوا
جہاں کے ہم ہیں نظر میں وہاں کا موسم ہے

ہوا کی ضد بھی وہی ہے دیے کی زد بھی وہی ہے
عجب حکایتیں شب زادگاں کا موسم ہے

کڑکتی بجلیاں ابر سیاہ بارشِ سنگ
زمیں سے کہہ دو ابھی آسماں کا موسم ہے

فضا میں عطر سی خوشبو گھلے گی ابھی
اور ابھی فسانہ دل سادگاں کا موسم ہے

چھلک رہے ہیں سبھی درد مہرباں ہو کر
اٹھاؤ ہاتھ کہ ابھی آزارِ جاں کا موسم ہے

اب اس کے بعد زمیں رفتہ رفتہ ہو گی سیاہ
ابھی ہے سرخ کہ یہ گشتگاں کا موسم ہے

ABOUT THE AUTHOR

...view details