عیدالاضحیٰ سنت براہیمی کا احیاء واعادہ اور خراج عقیدت ہے جس طرح عید الفطر ماہ رمضاں کا شکرانہ ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اکرمؐ سے صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ"یا رسول اللہ! ما ہذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم ابراہیم علیہم السلام"(مسند احمد، ترمذی ، ابن ماجہ)۔ "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے"۔اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام نے مزید یہ بھی دریافت کیا کہ "فما لنا فیھا یا رسول اللہ؟ قال: بکل شعرة حسنة"صحابہ نے عرض کیا کہ"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!پھر اس میں ہمارے لئے کیا (اجر وثواب)ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی"۔ حضرت ابراہیمؑ کی یہ وہ قربانی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بہت ہی عظیم قرار دیا ہے۔ " وَنادَيناهُ أَن يا إِبراهيمُ۔ قَد صَدَّقتَ الرُّؤيا ۚ إِنّا كَذٰلِكَ نَجزِي المُحسِنينَ۔ إِنَّ هٰذا لَهُوَ البَلاءُ المُبينُ۔ وَفَدَيناهُ بِذِبحٍ عَظيمٍ"(الصافات410-710)۔"اور ہم نے ندا دی کہ "اے ابراہیمؑ۔ تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی"۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا"۔ اس قربانی کو عظیم قرار دینا، اس کی یاد میں اس عمل کو جسے اللہ تعالیٰ نے سنت براہیمی کہا ہے مسلسل عیدالاضحیٰ کے دنوں میں دہرایاجانا، خوشی کے لمحات اور عید سعید کوان دنوں میں منایا جانا یہ سب عظیم قربانی کی وجہ سے ہے۔
یہ قربانی عظیم اس لئے ٹھہری کہ حضرت ابراہیمؑ نے حکم الٰہی کی تعمیل میں اپنے جگر گوشے کو پیش کردیا تھا۔اس عمل کو آنکھیں دیکھ نہ سکتی تھیں کیونکہ ان پر اس وجہ سے پٹّی باندھ لی گئی تھی تاکہ محبت پدری ہاتھوں کو لرزا نہ دے۔ دل حکم الٰہی کی تعمیل میں سجدہ ریز تھا، زبان ذکر میں مشغول تھی اور ہاتھ اطاعت وفرمابرداری میں مصروف تھا۔ چھری چلی، خون بہااور قربانی دیدی گئی ۔ آنکھوں پر پٹّی باندھے حضرت ابراہیمؑ کو کب معلوم تھا کہ ان کے ہاتھوں ذبح ہونے والی جان بیٹے کی نہیں دمبے کی ہے جسے اللہ نے بیٹے کی جگہ بدل دیا اور ان کی چھری بیٹے کے بجائے دمبے کی گردن پر چلی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے پورے ہوش وحواس اور عزم وارادے کے ساتھ اپنے بیٹے اسمٰعیل کو ذبح کیا تھا۔ یہی وہ ' کھلی آزمائش' تھی جس میں حضرت ابراہیمؑ پورے اترے تھے۔ بڑے امتحان میں حاصل ہونے والی کامیابی بھی بڑی ہوتی ہے اور اس پر ملنے والاانعام بھی غیر معمولی ہوتا ہے۔ اللہ کو یقینا اسمٰعیل کی قربانی لینا مقصود نہ تھا، مقصد تو امتحان تھا جس میں وہ کامیاب ہوگئے ۔ ادھرکامیابی ملی ادھر اس کا انہیں انعام بھی ملا کہ " ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا"۔ نبی ؑ کی فرمابرداری اور نبی زادہ کی سعادت مندی اللہ کے یہاں اس پائے کو پہنچی کہ قیامت تک کے لئے یاد گار بنا دی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اس عمل کو سنت براہیمی قرار دیدیا گیا اور امت محمدیہ میں اسے جاری کردیا گیا۔ "قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کردی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفاداری وجاں نثاری کےاس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں" (تلخیص تفہیم القرآن۔ص 702)
عیدالا ضحیٰ کے موقع پر قربانی کےدنوں میں امت محمدیہ کے ہر صاحب حیثیت کے لئے لازم ہے کہ وہ سنت براہیمی پر عمل پیرا ہو۔ اللہ کے حضور عہد کرے کہ اس کا جانور کی قربانی دینے کا عمل اس بات کے اظہار کے لئے ہے کہ جب جب جس نوعیت اور جس سطح کی قربانی دینے کی ضرورت پیش آئے گی وہ کبھی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ جو صاحب حیثیت نہیں ہیں ان سے بھی یہ عمل تقاضہ کرتا ہے وہ بھی ہمہ وقت ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے خود کو تیار رکھیں ۔ قربانی کے گوشت کو اعزاء واقرباء، دوست واحباب ، قرب وجوار اور غرباء ومساکین میں تقسیم کرنے کا عمل بھی ایک خاص حکمت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جس طرح صدقۂفطرکی ادائیگی سے پوری امت عیدالفطر کی خوشیوں میں اور گوشت کو تقسیم کرکےعیدالاضحیٰ کی خوشیوں میں شریک ہوتی ہےاسی طرح اطاعت وفرمابرداری،جاں نثاری اور قربانی میں بھی پوری کی پوری امت شریک اور ایک دوسرے کی معاون ومدد گار ہے۔ وقت پڑنے پر قربانی دینے میں رخصت نہیں عزیمت سے کام لیا جائے گااور یہ امت کے چند لوگوں تک مخصوص نہیں ہوگا بلکہ تمام کے تمام لوگ اس کام میں حسب صلاحیت و ضرورت برابر کے شریک ہوں گے۔