کشمیر پریس کلب Kashmir Press Club پر ہفتہ کو سینئر صحافی سلیم پنڈت کے ساتھ چند صحافیوں نے 'غیر قانونی طریقے سے قبضہ' کیا ہے، جبکہ منتخب باڈی نے 15 فروری کو انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ اس غیر قانونی عمل پر صحافتی انجمن کے علاوہ سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے مذمت کی۔
وہیں ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا Editors Guild of India نے بھی اس غیر جمہوری عمل پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ گلڈ کے صدر سیما مصطفیٰ نے کہا کہ حکام نے رجسٹرار آفس سوسائٹی کی کلب کی رجسٹریشن کو التوا میں رکھا ہوا ہے جو باعث افسوس ہے جبکہ سوسائٹی نے 29 دسمبر 2021 کو اس کی رجسٹریشن سند جاری کی تھی۔
گلڈ نے مزید کہا کہ جس طرح پولس اور سیکورٹی فورسز کی مدد سے پریس کلب پر قبضہ کیا گیا ہے وہ غیر قانونی عمل ہے۔ اس غیر جمہوری عمل میں پولیس کی بھی حمایت حاصل ہے۔ پریس کلب پر زبردستی قبضہ کرنا جس میں پولیس اور انتظامیہ کا ساتھ ہے، سے صاف ظاہر ہے کہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ Editors Guild of India on Kashmir Press Club
ایڈیٹرز گلڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ پریس کلب کی منتخب انتظامیہ بحال کی جائے، انتخابات سے نئی مینجمنٹ اور ایگزیکٹو کونسل کا انتخاب کیا جائے اور غیر قانونی طریقے سے کسی بھی مسلح فورس کو کلب میں مداخلت کرنے پر پابندی عائد کی جائے اس کے علاوہ مسلح فورسز کی پریس کلب میں داخل ہونے کے معاملے کی آزادانہ و غیر جانبدارانہ تحقیق کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: Journalist Bodies Condemn Taking Over Charge of Kashmir Press Club: کشمیر پریس کلب پر نئی تین رکنی کمیٹی کا کنٹرول غیر قانونی
واضح رہے کہ ایڈیٹرز گلڈ کی بنیاد 1978 میں پریس کی آزادی کے تحفظ اور اخبارات و رسائل کی ادارتی قیادت کے معیار کو بلند کرنے کے دو مقاصد کے ساتھ رکھی گئی تھی۔
پریس کلب آف انڈیا نے بھی کشمیر پریس کلب کے ساتھ پیشرفت پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پریس کلب آف انڈیا Press Club of India نے پریس ریلیز جاری کرکے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پرامن طریقے سے انتخابات کے جمہوری عمل کی اجازت دی جائے۔ ہم عزت مآب جموں و کشمیر ایل جی سے معاملے کو دیکھنے اور انتخابات میں سہولت فراہم کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
پریس کلب آف انڈیا نے کشمیر پریس کلب کے ساتھ پیشرفت پر گہری تشویش کا اظہار کیا وہیں دہلی یونین آف جرنلسٹس DELHI UNION OF JOURNALISTS پریس کلب آف کشمیر کو بند کرنے کے حکومتی اقدام پر ناراض ہے۔ پریس کلب ہر جگہ معلوماتی مرکز ہیں جہاں صحافی معلومات اور خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں، جس سے وہ اپنے کام کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔
یہ وہ جگہیں بھی ہیں جہاں صحافی مصروف وقت کے درمیان رکتے ہیں اور آرام کرتے ہیں، جب کہ وہ اگلے انٹرویو، اگلی پریس بریفنگ کا انتظار کرتے ہیں، وہ سستے کھانا اور مشروبات حاصل کرنے اور ساتھیوں کے ساتھ مل جلنے کی جگہیں ہیں۔ اس لیے پریس کلب پیشے کے لیے انمول ہیں۔ کشمیر میں جہاں صحافت ایک مشکل، پرخطر، خطرناک پیشہ ہے وہیں پریس کلب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Amid Heavy Deployment, ‘Interim Prez’ Took Over KPC: سخت سیکورٹی حصار میں ایوان صحافت پر قبضہ
دہلی یونین نے مزید لکھا کہ ہم یہ بھی نوٹ کرتے ہیں کہ کشمیر میں صحافیوں کی من مانی گرفتاریاں، نظربندیاں اور پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے۔ 5 جنوری 2022 کو کشمیر والا کے تربیت یافتہ صحافی سجاد گل کو حکومت مخالف جذبات بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ گزشتہ سال سلمان شاہ اور سہیل ڈار کو ’امن کی خلاف ورزی‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ صحافی آصف سلطان 27 اگست 2018 سے جیل میں ہیں اور ٹرائل کا انتظار کر رہے ہیں۔
ہم آج کشمیر میں زیادہ جمہوریت اور آزادی صحافت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم کشمیر پریس کلب میں پیش رفت کو صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کی ایک اور قابل مذمت کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم کلب کو فوری طور پر منتخب عہدیداروں کو بحال کرنے اور لائسنس کی تجدید کا مطالبہ کرتے ہیں۔ صحافیوں کے کلب کو چلانے میں حکومتی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
اس سے قبل کشمیر پریس کلب پر غیر قانونی قبضہ کو گہرا صدمہ قرار دیتے ہوئے کلب کے منتخب صدر شجاع الحق نے جموں و کشمیر کے ایل جی منوج سنہا کو اس معاملے میں مداخلت کی گزارش کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کے یہ ادارے کو جمہوری طریقے سے کام کرنا چاہیے۔
انہوں ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ دو برسوں سے منتخب باڈی نے 13 جنوری کو انتخابات منعقد کرنے کے متعلق اعلان کیا تھا کہ 15 فروری کو یہ جمہوری عمل مکمل کیا جائے گا، لیکن انتظامیہ کی طرف سے اس کی رجسٹریشن کو التوا میں رکھنا قابل افسوس ہے۔