اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

Dynastic Politics Biggest Enemy of Democracy: جماعتوں کی اقربا پروری جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن، وزیر اعظم مودی

وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ میں تنوع میں اتحاد کے منتر پر عمل کرتے ہوئے سب کو ساتھ لے کر چلنے میں یقین رکھتا ہوں۔ جماعتوں کی اقربا پروری جمہوریت کے لیے سب سے بڑی دشمن ہیں۔ Dynastic Politics Biggest Enemy of Democracy

By

Published : Feb 9, 2022, 10:24 PM IST

dynastic-politics-biggest-enemy-of-democracy-pm-modi
اقربا پروری جماعتیں جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن: وزیر اعظم مودی

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ میں تنوع میں اتحاد کے منتر پر عمل کرتے ہوئے سب کو ساتھ لے کر چلنے میں یقین رکھتا ہوں۔ کانگریس کا کام کرنے کا انداز اور نظریہ فرقہ پرستی، ذات پات، لسانیت، صوبائیت، اقربا پروری اور بدعنوانی پر مبنی ہے۔ اگر یہی اس ملک کے مرکزی دھارے میں رہا تو ملک کا کتنا بڑا نقصان ہوگا'۔ Dynastic Politics Biggest Enemy of Democracy

ویڈیو

آج جو ملک کی حالت ہے اس کے لیے اگر کوئی ذمہ دار ہے تو وہ کانگریس ہے۔ Prime Minister Attacked Congress۔ اس ملک کو جتنے بھی وزیر اعظم ملے ان میں اٹل جی اور میرے علاوہ سبھی وزیر اعظم کانگریس کے اسکول کے ہی تھے۔'

میں سماج کے لیے ہوں لیکن میں جس جعلی سوشلزم کی بات کرتا ہوں وہ مکمل طور پر اقربا پروی ہے۔ لوہیا جی خاندان کہیں نظر آتا ہے کیا؟ جارج فرنانڈیز کا خاندان کہاں نظر آتا ہے؟ کیا نتیش بابو کا خاندان کہیں نظر آ رہا ہے؟

ایک دفعہ کسی نے مجھے خط بھیجا کہ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی کے خاندان کے 45 لوگ ایسے تھے جو کسی نہ کسی عہدے پر تھے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ اس کے پورے خاندان میں 25 برس سے زیادہ عمر کے ہر فرد کو الیکشن لڑنے کا موقع دیا گیا ہے۔ کچھ سیاست دان ذاتی فائدے کے لیے تنوع کو ایک دوسرے کی مخالفت میں استعمال کر رہے ہیں۔ گزشتہ 50 برسوں سے انہوں نے یہی کیا ہے، ہر بات پر ملک کو تقسیم کرو اور حکومت کرو'۔

ایک ہی خاندان کے کئی لوگ عوام کے درمیان میں جاتے ہیں اور انہیں منتخب کرکے بھیجتے ہیں، یہ سیاست کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا صرف ایک خاندان کے لوگ ہی اس پارٹی کا صدر بنیں، خزانچی بنیں، وہ پارلیمانی بورڈ بنیں، اگر باپ نہیں بن سکتا تو بیٹا اس پارٹی کا صدر بن جائے۔ یہ جو وراثت کی صورت میں چل رہا ہے، خاندان کی صورت میں جاری ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو پارٹی خاندان کی بن جاتی ہے'۔

اقربار پرور جماعتیں جمہوریت کی سب سے بڑی دشمن ہے، جب خاندان ہی سرفہرست ہو تو خاندان بچاؤ، پارٹی بچے نہ بچے، ملک بچے نہ بچے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان ٹیلنٹ کو ہوتا ہے۔ عوامی زندگی میں زیادہ ٹیلنٹ کا ہونا ضروری ہے۔'

الیکشن کا وقت ہو یا نہ ہو، بی جے پی تنظیم میں ہو یا حکومت میں، ہم ہمیشہ عوام اور جناردن کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے منتر پر جی جان لگا دیتے ہیں۔'

میں اس الیکشن میں تمام ریاستوں میں دیکھ رہا ہوں کہ بی جے پی کی طرف لہر ہے، بی جے پی بھاری اکثریت سے جیتے گی۔ ان پانچ ریاستوں کے عوام ہمیں خدمت کا موقع دیں گے۔ جن ریاستوں نے ہمیں خدمت کا موقع دیا ہے، انہوں نے ہمارا امتحان لیا ہے، ہمارا کام دیکھا ہے۔'

بی جے پی اجتماعیت پر یقین رکھتی ہے۔ ہم سبھی سطح پر اجتماعی طور پر کام کرنے کے عادی ہیں۔ وہ تصویر وزیر اعظم کی نہیں ہے، یہ ایک بی جے پی کارکن کی تصویر ہے جسے نریندر مودی کہا جاتا ہے۔'

بی جے پی ہار، ہار کر ہی جیتنے لگی ہے۔ ہم نے کئی شکستیں دیکھی ہیں، ضمانتیں ضبط ہوئیں۔ ایک بار جن سنگھ کے دور میں الیکشن ہارنے کے بعد بھی مٹھائیاں بانٹی جا رہی تھیں تو ہم نے پوچھا کہ ہارنے پر مٹھائیاں کیوں بانٹ رہے ہیں؟ تب بتایا گیا کہ ہمارے تین لوگوں کی ضمانتیں بچ گئی۔'

ہم اس دور کے لوگ ہیں اس لیے ہم نے جیت اور ہار دونوں دیکھی ہیں۔ جب ہم فتح یاب ہوتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جتنا ہوسکے زمین سے جڑیں، زمین کے ساتھ جتنا گہرا تعلق ہوسکے استوار کریں۔ جب ہم الیکشن جیتتے ہیں تو عوام کے دل جیتنے کے کام میں کوئی کوتاہی نہیں ہونے دیتے۔ ہمارے لیے ہر لمحہ، ہر دن، ہر منصوبہ، ہر کام عوام کے لیے وقف ہے۔ یوگی جی کے منصوبے شاندار ہیں، انہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ '

اتر پردیش کے لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا ہے، وہاں جس طرح کا غنڈہ راج اور دبنگ راج چلتا تھا، حکومت میں دبنگ لوگوں کو پناہ دی جاتی تھی۔ بہن بیٹی گھر سے باہر نہ نکل سکی، اتر پردیش نے دیکھا۔

آج اتر پردیش کی بیٹی کہہ رہی ہے کہ شام کے اندھیرے کے بعد بھی اگر کام ہو تو جا سکتی ہوں۔ یہ اعتماد جو بنایا گیا ہے سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے۔'

کانگریس پر طنز کرتے ہوئے انہوں کہا کہ' ملک کی آج جو حالت ہے اس کے لیے کانگریس ذمہ دار ہے۔ اگر یہ اس ملک کے مرکزی دھارے میں رہا تو ملک کا کتنا بڑا نقصان ہوتا۔ ہم نے دو لڑکوں کا یہ کھیل پہلے بھی دیکھا تھا اور وہ اتنے مغرور تھے کہ انہوں نے 'گجرات کے دو گدھے' کا لفظ استعمال کیا۔ اس کے بعد اتر پردیش کے لوگوں نے اسے حساب سکھایا۔ ایک دفعہ 2 لڑکے تھے اور ایک بوا بھی ان کے ساتھ تھیں پھر بھی ان کی حالت نہ بدلی۔'

ہمارا ملک اتنا بڑا ہے کہ اگر ہم ایک دوسرے کے خلاف کام کریں گے تو ہمارے وسائل ضائع ہوں گے اور ملک کی ترقی کی رفتار رک جائے گی۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم مل بیٹھ کر عوام کی فلاح و بہبود کے کام کو تیز تر کریں۔ بھارت میں دنیا بھر سے مہمان آتے ہیں، اس لیے پہلے انہیں دہلی میں ہی آنا جانا پڑتا تھا۔ میں چین کے صدر کے لیے تمل ناڈو، فرانس کے صدر کے لیے یوپی ہوں۔ اور جرمن چانسلر کو کرناٹک لے گئے۔ ملک کی طاقت کو بلند کرنا، ہر ریاست کی حوصلہ افزائی کرنا ہمارا کام ہے۔ اقوام متحدہ میں، میں تمل میں بات کرتا ہوں، دنیا کو فخر ہے کہ بھارت میں دنیا کی قدیم ترین زبان ہے۔ بی جے پی کا منتر سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کی کوشش ہے۔ ہم نے کبھی اپنے اصول نہیں بدلے۔'

مزید پڑھیں:

ABOUT THE AUTHOR

...view details